تشریح:
(1) داڑھی بڑھانے کے لیے مختلف الفاظ استعمال ہوتے ہیں: مثلاً: وفروا، أوفروا، أعفوا، أرجئو اور أوفوا۔ ان کے متعلق امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان تمام الفاظ کے ایک ہی معنی ہیں کہ داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے۔ (شرح صحیح مسلم للنووي: 129/1) داڑھی شعائر اسلام سے ہے جس سے ایک مسلمان کی شناخت اور پہچان ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریقوں سے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، مثلاً: ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بڑھانے کے متعلق حکم دیا ہے آپ کا حکم وجوب کے لیے ہوتا ہے الا یہ کہ کوئی قرینہ صارفہ پایا جائے۔ ٭ اس سے چھیڑ چھاڑ کرنے کو یہودونصاریٰ اور مشرکین و مجوس سے ہم نوائی قرار دیا ہے اور ان کی مخالفت کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے: ٭ مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں پست کراؤ۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5892) ٭ یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرو، اپنی داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں چھوٹی کرو۔ (مسند أحمد: 264/5) ٭ مجوسی لوگوں کی مخالفت کرو، داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑو اور مونچھیں پست کراؤ۔ (صحیح ابن حبان: 408/1) ٭ شیطان کا ایک حربہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو خلقتِ الٰہیہ میں تبدیلی پر آمادہ کرتا ہے۔ (النساء: 114) داڑھی سے چھیڑچھاڑ کرنا تخلیق الٰہی میں تبدیلی کرنا ہے جس سے ہمیں منع کیا گیا ہے۔ ٭ داڑھی کا بڑھانا امور فطرت سے ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 604 (261)) اس حدیث کا تقاضا ہے کہ اسے فطرت پر رہنے دیا جائے، اس میں کانٹ چھانٹ کر کے غیر فطری عمل نہ کیا جائے۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا جبکہ داڑھی منڈوانے سے عورتوں کی مشابہت ہوتی ہے۔ اس سے محفوظ رہنے کا یہی طریقہ ہے کہ اسے اپنی حالت پر رہنے دیا جائے۔
(3) داڑھی منڈوانا ایک برا کام ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو ایرانی باشندوں کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا جنہوں نے داڑھی منڈوا رکھی تھی۔
(4) داڑھی رکھنا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سنت نہیں بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کا طریقہ ہے۔ ان حضرات کے جتنے بھی پیروکار ہیں ان میں سے کوئی بھی داڑھی منڈوانے والا نہیں۔
(5) گناہ کرتے وقت ہر انسان اپنے اندر ایک اذیت محسوس کرتا ہے لیکن داڑھی کی مخالفت ایسا جرم ہے کہ اس کے کرنے پر انسان خوش ہوتا ہے اور اسے اپنے لیے باعث زینت خیال کرتا ہے، اس سے بڑھ کر اس کی توہین کیا ہو سکتی ہے کہ داڑھی منڈوانے والا ان مقدس بالوں کو گندی نالی میں پھینک دیتا ہے۔
(6) مندرجہ بالا امور کے پیش نظر ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ داڑھی کے بغیر رہے اور اسے منڈوا کر اپنے دشمن شیطان کو خوش کرے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ داڑھی بڑھانے کے نبوی حکم سے ایک صورت مستثنیٰ ہے کہ جب عورت کو داڑھی کے بال نکل آئیں تو اسے منڈوانا مستحب ہے، اسی طرح اگر داڑھی بچہ یا مونچھیں اگ آئیں تو انہیں بھی صاف کرا دیا جائے۔ (فتح الباري: 431/10)
(7) کچھ اہل علم داڑھی کاٹنے کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی داڑھی کے طول و عرض سے زائد بال لے لیتے تھے۔ (جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2762) اس کے متعلق حافظ ابن حجر، امام بخاری رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے اور اس میں ایک راوی عمر بن ہارون ہے جسے مطلق طور پر ایک جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (کتاب میں حوالہ موجود نہیں) اسی طرح حضرت ابن عمر، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ یہ حضرات عام طور پر یا خاص مواقع پر ایک مٹھی سے زائد داڑھی اور رخساروں کے بال کٹوا دیتے تھے، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری حدیث: 5892 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے طبقات ابن سعد: 4/334 اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مصنف ابن ابی شیبہ: 4/85 میں اس قسم کی روایات موجود ہیں، حالانکہ ان تینوں حضرات سے داڑھی بڑھانے کے متعلق امر نبوی بھی منقول ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری، حدیث: 5892، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم، الطہارۃ، حدیث: 603 اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مجمع الزوائد: 5/169 میں روایات آئی ہیں۔ اس بنا پر ہمارے نزدیک قابل عمل ان حضرات کی روایت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت ہے۔ بہرحال کانٹ چھانٹ کے بغیر پوری داڑھی رکھنا تمام انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو اپنا حلیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق رکھتے ہیں اور اس فطرتی حسن سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرتے۔ واللہ المستعان