تشریح:
1۔ پہلے باب میں علم کے متعلق طلب زیادت کا حکم تھا، اس باب میں اس کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ جس چیز کا علم نہ ہو، اس کے متعلق اہل علم سے دریافت کر لینا چاہیے نیز اس حدیث میں معلم کے کچھ آداب ہیں:
(1) اسے طلباء کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
(2) کسی ضرورت و مصلحت کے پیش نظر اسے کسی سوال کے جواب کو مؤخر کرنے کی اجازت ہے۔ اسی طرح کچھ آداب طالب علم سے متعلق ہیں۔
(3) اگر استاد کسی سے گفتگو میں مصروف ہو تو خواہ مخواہ اس میں دخل انداز نہ ہو۔
(4) اگر کوئی بات اس کی سمجھ میں نہ آئے تو اس کے متعلق استفسار کرنے کی اجازت ہے۔ (فتح الباري : 1؍288)
2۔ ہنگامی قسم کے سوالات کے متعلق اصل بات یہ ہے کہ سوال کی نوعیت سائل اور مفتی کے حالات پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ اگر کوئی ہنگامی سوال عقیدے کے متعلق ہےتو خطبہ چھوڑ کر بھی اس کا جواب دیا جا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے دین کے متعلق سوال کیا تو آپ نے خطبہ چھوڑکر اسے جواب دیا۔ (صحيح مسلم، الجمعة: 2025۔(876))
3۔ ضروریات زندگی سے متعلق اہم سوالات کرنے چاہئیں، ان کا جواب بھی پہلے دینا چاہیے، جن سوالات کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے نہیں ہے ان سے صرف نظر کرنا عین مصلحت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے قیامت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ’’تو نے اس کے متعلق کیا تیاری کی ہے؟‘‘ یعنی سوال اس کی تیاری کے متعلق کرنا چاہیے تھا۔ (صحيح البخاري، الأدب، حدیث:6171)
4۔ اگر مفتی مصروف ہو اور کوئی جلد باز دوران مصروفیت میں سوال کرتا ہے تو ضروری نہیں کہ اسی وقت جواب دیا جائے بلکہ اپنی مصروفیات سے فراغت کے بعد اس کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ یہ کتمان علم نہیں جس پر قرآن میں وعید آئی ہے۔
5۔ حدیث میں’’امر‘‘سے مراد دینی معاملات ہیں جیسے خلافت قضا اور افتا وغیرہ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دینی ضروریات کے لیے علمی لحاظ سے مضبوطی کے لیے علماء کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ علماء حضرات کی ذمے داری ہے کہ وہ طالبان حق کی تسلی کرائیں۔ حدیث میں ہے کہ قیامت سے پہلے علم کی تلاش جاہلوں کے ہاں کی جائے گی۔ جب ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو قیامت قریب ہوگی۔ (فتح الباري:1؍189)