تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ عصر کے بعد دورکعات ہمیشہ پڑھا کرتے تھے۔ جبکہ متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ انھیں ادا کیا تھا لیکن ایک مرتبہ پڑھنے والی روایات ضعیف ہیں اور ہمیشہ پڑھنے والی روایات قوی ہیں، اس لیے ان کو ترجیح ہوگی۔ آپ کے اس عمل کے بارے میں متعدد توجیہات کی گئی ہیں، مثلاً: یہ آپ کاخاصہ تھا، بیان جواز کے لیے تھا، آپ ایک مرتبہ جو عمل کرلیتے، اس پر دوام فرماتے تھے، وغیرہ وغیرہ، نیز ہمیشہ پڑھنے کا مطلب یہ نہیں کہ جب سے نماز فرض ہوئی تھی آپ ان رکعات کی ادائیگی کا اہتمام کرتے تھے، بلکہ واقعۂ وفد عبدالقیس کے بعد ان کے ادا کرنے پر دوام فرمایا ۔ والله أعلم.
(2) رسول اللہ ﷺ کے افعال کی دو اقسام ہیں: ایک وہ ہیں جنھیں آپ نے بطور اسوہ اور نمونہ ادا فرمایا ہے، وہ شریعت کا حصہ ہیں اور امت کےلیے ایسے افعال کی پیروی کرنا ضروری ہے۔ دوسری قسم ان افعال کی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت پر محمول ہیں، وہ امت کےلیے نمونہ یا اسوہ نہیں۔ عصر کے بعد دورکعت پڑھنا اور پھر اس پردوام بھی خصوصیت کی قبیل سےہے، جیسا کہ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے، چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ انھیں عصر سے پہلے (ظہرکے بعد) پڑھا کرتے تھے، پھر کسی مصروفیت یا بھولنے کی وجہ سے انھیں نہ پڑھ سکے تو عصر کے بعد ادا فرمایا، پھر اس کو برقرار رکھا۔ اور آپ جب کسی نماز کو شروع کرلیتے تو اس پر دوام فرماتے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1934(835)) حضرت عائشہ ؓ ہی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ انھیں عصر کے بعد خود ادا فرماتے لیکن آپ دوسروں کو منع فرماتے تھے۔ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث:1280) حضرت ام سلمہ ؒ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے میرے گھر عصر کے بعد دو رکعت ادا کیں تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!آپ نے پہلے تو کبھی انھیں ادا کرنے کا اہتمام نہیں کیا تھا؟ آپ نے فرمایا:’’میرے پاس کچھ مال آگیا تھا، میں اس کی تقسیم میں ایسا مصروف ہوا کہ ظہر کے بعد دو رکعت نہ پڑھ سکا، وہ میں نے اب پڑھی ہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!اگر ہم کسی وجہ سے ان دو رکعات کو نہ پڑھ سکیں تو بعد میں پڑھ سکتے ہیں؟آپ نے فرمایا:’’ نہیں۔‘‘ (مسند أحمد:315/6) ان روایات کا مدعا یہ ہے کہ ظہر کی دو سنت عصر کے بعد ادا کرنا، پھر اس پر مداومت فرمانا رسول اللہ ﷺ کا خاصہ ہے اور یہ امت کے لیے اسوہ یا نمونہ نہیں۔