تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ دو اوقات، یعنی صبح اور عصر کے بعد نماز پڑھنے سے لوگوں کو منع کرتے تھے، لیکن وفد عبدالقیس کی دوبارہ آمد کے بعد آپ نے حضرت ام سلمہ ؓ کے گھر عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے کا اہتمام فرمایا، زوجۂ محترمہ نے جب آپ کے قول اور فعل میں بظاہر تضاد دیکھا تو اس کی وجہ دریافت کی، رسول اللہ ﷺ نے انھیں اپنے عذر سے آگاہ فرمایا کہ مصروفیت کی وجہ سے نماز ظہر کے بعد دورکعت نہ پڑھ سکا تھا وہ میں نے اب ادا کی ہیں۔ (مسند أحمد:310/6) لیکن اس کے بعد حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں علانیہ طور پر اس عمل کو جاری رکھا۔( سنن النسائي، المواقیت، حدیث:578) البتہ اسے دوسرے لوگوں سے مخفی رکھا مبادا وہ انھیں سنت خیال کرکے پڑھنا شروع کردیں۔ حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں آپ کو یقین تھا کہ لوگوں کو منع کرنے کے باوجود مجھے پابندی سے پڑھتے دیکھ کر اسے خصوصیت پر محمول کریں گی، لیکن حضرت عائشہ ؓ پر ذہین اور فطین ہونے کے باوجود یہ بات مخفی رہی، بلکہ انھوں نےرسول اللہ ﷺ کے اس عمل کو سنت خیال کیا اور منع کرنے کے متعلق مختلف اسباب بیان فرمائے، ایک تو یہ کہ لوگ خواہ مخواہ مشقت میں مبتلا نہ ہوں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ لوگوں پر تخفیف کو پسند کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:590) نیز حکم امتناعی کا تعلق تحری کی صورت میں ہے، جیسا کہ آپ نے حضرت عمر ؓ کے متعلق اپنے خیالات کا بایں الفاظ اظہار کیا کہ انھیں وہم ہوا ہے، رسول اللہ ﷺ نے صرف تحری کی صورت میں منع فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1931(833)) واضح رہے کہ حضرت عمر ؓ عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے والوں کو مارتے تھے۔ (صحیح البخاري، السھو، حدیث:1233)
(2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ عصر کے بعد دورکعت پڑھنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کے دوام سے حضرت عائشہ ؓ نے سمجھا کہ عصر کے بعد غروب آفتاب تک نوافل پڑھنے کا حکم امتناعی مطلق نہیں، بلکہ اس انسان کے متعلق ہے جو غروب شمس کے وقت جان بوجھ کر بالارادہ نماز پڑھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خود عصر کے بعد نفل پڑھا کرتی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے بھی یہی سمجھا اور عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے کا اہتمام جاری رکھا۔ (فتح الباري:87/2)