تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گدے پر بیٹھنا پسند نہیں کیا جس پر تصویریں تھیں جبکہ قبل ازیں حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تصویر والے پردے کو پھاڑ کر دو تکیے بنائے تھے جس پر آپ بیٹھا کرتے تھے۔ ان احادیث میں قطعاً کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ جب پردہ پھاڑ کر دو گدے بنائے گئے تو تصویریں بھی پھٹ گئیں اور وہ اپنی اصلی حالت میں نہ رہیں، اس لیے آپ ان پر بیٹھتے اور آرام فرماتے تھے اور بازار سے خریدے ہوئے گدے پر تصاویر جوں کی توں تھیں، اس لیے آپ نے ان پر بیٹھنا پسند نہیں فرمایا۔ جب تصویر اپنی صورت پر باقی ہو گی تو گھر میں فرشتوں کے داخل ہونے کے لیے رکاوٹ کا باعث ہے اور جب تصویر پھٹی ہو تو فرشتوں کے داخلے کے لیے مانع نہیں ہے۔
(2) بہرحال تصویر ہر حال میں ممنوع ہے، خواہ اس کا سایہ ہو یا نہ ہو، وہ کپڑا بنتے وقت دھاگوں سے بنائی جائے یا نقش کی جائے دونوں صورتوں میں تصویر حرام اور ناجائز ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مذکورہ وعید بنانے والے اور استعمال کرنے والے دونوں کے لیے ہے کیونکہ تصویر استعمال کے لیے بنائی جاتی ہے، تصویر بنانے والا تو محض ایک سبب ہے اور اسے استعمال کرنے والا براہ راست اس سے استفادہ کرتا ہے۔ اگر بنانے والے کے لیے یہ وعید ہے تو استعمال کرنے والے کے لیے تو بالاولیٰ ہونی چاہیے۔ (فتح الباري: 478/10) واللہ أعلم