تشریح:
(1) حضرت بسر بن سعید جناب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے عبیداللہ خولانی کے ہمراہ گئے تھے وہاں ان سے سوال کیا جیسا کہ ایک دوسری روایت میں ہے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3226)
(2) واضح رہے کہ "إلا رقما في الثوب" سے مراد وہ تصویر والا کپڑا ہے جو پاؤں تلے روندا جائے یا بچھونے کی طرح اسے نیچے بچھایا جائے تو ایسے کپڑے میں کوئی حرج نہیں۔ دراصل آغاز اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کی تصویر سے منع فرمایا تھا کیونکہ لوگوں نے تازہ تازہ تصاویر کی عبادت ترک کی تھی۔ جب لوگ ان تصاویر سے پوری طرح متنفر ہو گئے تو ضرورت کے پیش نظر وہ تصاویر مباح کر دیں جنہیں پاؤں تلے روندا جاتا تھا اور ان کی بے قدری کی جاتی تھی کیونکہ بے قدر چیز کی کوئی بھی عبادت نہیں کرتا اور جو تصویریں ذلیل و خوار نہ ہوں بلکہ عزت و تکریم کے ساتھ انہیں رکھا گیا ہو ان کا حرام ہونا بدستور باقی رہا۔ (عمدة القاري: 15/130)
(3) بہرحال بنیادی بات یہی ہے کہ جاندار اشیاء کی تصاویر اور صلیب یا معبودان باطلہ کے نشانات کو بطور زینت لٹکانا یا اپنے پاس رکھنا جائز نہیں لیکن اگر کپڑے پر یا کسی ایسی حالت میں ہوں جہاں ان کی توہین ہو رہی ہو تو جائز ہے لیکن ان سے پرہیز کرنا پھر بھی افضل ہے۔ واللہ أعلم