تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاضر نمازوں کی طرح فوت شدہ نمازوں کو بھی ترتیب کے مطابق ادا کیا جائے، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ اس روایت میں صرف نماز عصر کا بیان ہے جبکہ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہر، عصر اور مغرب تین نمازیں فوت ہوئی تھیں، جنھیں عشاء کے وقت حسب ترتیب ادا کیا گیا، آخر میں نماز عشاء باجماعت ادا فرمائی۔ اگرچہ بعض فقہاء کا موقف ہے کہ پہلے، وقت کی نماز ادا کی جائے، اس کے بعد سابقہ فوت شدہ نمازیں ادا کی جائیں، تاہم رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ مبارکہ یہ ہے کہ پہلے فوت شدہ نمازیں حسب ترتیب پڑھی جائیں، پھر حاضر نماز کو ادا کیا جائے۔ اگرچہ آپ کا مجرد فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا، لیکن رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر عمل کرنے میں ہی خیرو برکت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ جنگ خندق کے روز مشرکین مکہ نے رسول اللہ ﷺ کو اس قدر مشغول کیا کہ آپ کی چار نمازیں رہ گئیں۔ آپ نے فرصت کے وقت حضرت بلال ؓ کو حکم دیا، انھوں نے اذان دی، پھر اقامت کہی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی۔ پھر انھوں نے اقامت کہی تو آپ نے نماز عصر پڑھائی، پھر انھوں نے اقامت کہی تو آپ نے مغرب کی نماز پڑھائی، پھر انھوں نے اقامت کہی تو آپ نے نماز عشاء پڑھائی۔ (مسند أحمد:375/1)
(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فوت شدہ نمازوں کی قضا اور وقت کی نماز کے درمیان ترتیب ضروری ہے۔ اس کے علاوہ نماز کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:631) اس امر نبوی کے تحت نماز کے سلسلے میں جتنے بھی افعال و اعمال آئیں گے، ہمارے نزدیک ان سب کا ادا کرنا ضروری ہے۔ والله أعلم.