تشریح:
1۔ اس حدیث کا عنوان سے تعلق اس طرح ہے کہ پہلی حدیث میں نزول وحی کی جگہ کا تعین تھا کہ وحی کا آغاز غارحرا میں ہوا اور اس حدیث میں ابتدائے وحی کا وقت بتایا گیا ہے کہ وہ ماہ رمضان المبارک ہے۔ اس سے وحی کی عظمت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ کسی معمولی چیز کے لیے زمان ومکان کا تعین نہیں کیا جاتا بلکہ اس قسم کا اہتمام کسی اہم اور بلند پایہ چیز ہی کے لیے کیا جاتا ہے۔
2۔ سخاوت کسی کے سوال کرنے پر دل کے نرم ہونے کی وجہ سے کوئی چیز دینے کا نام ہے جبکہ (جُود) کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز جس کے لیے مناسب ہو، اس کے مانگے بغیر ہی اسے دے د ینا۔ بعض نے اس کا فرق یہ کیا ہے کہ سخاوت کا مطلب کچھ دے دینا اور کچھ اپنے لیے رکھ لینا ہے جبکہ جود کے معنی یہ ہیں کہ زیادہ دے دینا اورتھوڑا بہت اپنے لیے رکھنا۔ (الفروق اللغوية، ص: 196) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی (أَجْوَدَ النَّاسِ) تھے کیونکہ یہ ہر شخص کو وہی کچھ دیتے جو اس کے مناسب حال ہوتا، چنانچہ فقیروں کو مال دیتے، تشنگان علوم کی علمی پیاس بجھاتے اور گم کردہ راہوں کو سیدھا راستہ دکھاتے الغرض حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کے جُود کے تین درجے تھے: (الف)۔ عام طور پر بھی آپ تمام لوگوں سے زیادہ صاحب جودوسخا تھے۔ (ب)۔ رمضان المبارک میں یہ جودوکرم اور بڑھ جاتا تھا۔ (ج)۔ رمضان کی راتیں مذید اس شان جودوکرم میں اضافے کا باعث ہوتیں جبکہ آپ جبرئیل علیہ السلام سے ملاقات فرماتے۔ اس دوران میں کسی سائل کو تہی دامن اور مایوس واپس نہ کرتے حتیٰ کہ اگر قرض بھی لینا پڑتا تو بھی خیرات کا فیض عام جاری رکھنے کے لیے ایسا کرگزرتے تھے۔
3۔ (الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ) اس ہوا کو کہتے ہیں۔ جوبڑی تیز چلتی ہے اور بارش کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جودوسخا کو اس قسم کی بارش لانے والی ہوا سے تشبیہ دی گئی ہے جو کہ بہت ہی مناسب ہے، چنانچہ جس طرح باران رحمت سے بنجر اور بے آباد زمین سرسبزوشاداب ہو جاتی ہے اسی طرح آپ کے جودوسخا سے بنی نوع انسان کی اجڑی ہوئی دنیا آباد ہوئی اور ہر طرف رشد و ہدایت کے دریا موج زن ہوئے۔ الغرض آپ کے روحانی کمالات سے تمام کائنات فیض یاب ہوئی اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
4۔ اس حدیث میں سخاوت کے متعلق شوق دلایا گیا ہے، خاص طور پر رمضان المبارک میں دل کھول کراپنا مال خرچ کرنا چاہیے، نیز جب نیکو کار اوراہل خیر سے ملاقات ہو تو بھی فیاضی اوردریا دلی کا مظاہرہ کرناچاہیے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرنی چاہیے اور یہ تلاوت تمام اوراد و اذکار سے افضل اوراعلیٰ ہے۔(فتح الباري: 1؍31)
5۔ (مُدَارَسَه) یہ ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام رمضان میں نازل شدہ قرآن پڑھتےاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سنتے، پھر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت فرماتے اور حضرت جبریل علیہ السلام اس کا سماع فرماتے۔ گویا باری باری قرآن مجید پڑھتے جسے ہمارے ہاں دَور کرنا کہا جاتا ہے۔ آخری سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام سے دومرتبہ دور کیا تاکہ مجموعی طور پر پورے قرآن کی یاد دہانی ہوجائے، نیز یاد رہے کہ یہ آخری دور اسی ترتیب سے ہوا تھا جس ترتیب سے آج ہمارے ہاں قرآن موجود ہے کیونکہ اس آخری دور کے وقت حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود تھے۔ انھوں نے بعد میں اسی ترتیب سے لکھا جس ترتیب سے انھوں نے سنا تھا۔ واضح رہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ترتیب نزولی کے مطابق قرآن جمع کیا تھا اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ترتیب ان کےعلاوہ ہے۔