مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے، خصوصاً رمضان میں جب حضرت جبریل سے آپ کی ملاقات ہوتی تو بہت سخاوت کرتے۔ اور حضرت جبریل رمضان المبارک میں ہر رات آپ سے ملاقات کرتے اور آپ ان کے ساتھ قرآن مجید کا دور فرماتے۔ الغرض رسول اللہ ﷺ صدقہ کرنے میں کھلی (تیز) ہوا سے بھی زیادہ تیز رفتار ہوتے۔
تشریح:
1۔ اس حدیث کا عنوان سے تعلق اس طرح ہے کہ پہلی حدیث میں نزول وحی کی جگہ کا تعین تھا کہ وحی کا آغاز غارحرا میں ہوا اور اس حدیث میں ابتدائے وحی کا وقت بتایا گیا ہے کہ وہ ماہ رمضان المبارک ہے۔ اس سے وحی کی عظمت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ کسی معمولی چیز کے لیے زمان ومکان کا تعین نہیں کیا جاتا بلکہ اس قسم کا اہتمام کسی اہم اور بلند پایہ چیز ہی کے لیے کیا جاتا ہے۔ 2۔ سخاوت کسی کے سوال کرنے پر دل کے نرم ہونے کی وجہ سے کوئی چیز دینے کا نام ہے جبکہ (جُود) کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز جس کے لیے مناسب ہو، اس کے مانگے بغیر ہی اسے دے د ینا۔ بعض نے اس کا فرق یہ کیا ہے کہ سخاوت کا مطلب کچھ دے دینا اور کچھ اپنے لیے رکھ لینا ہے جبکہ جود کے معنی یہ ہیں کہ زیادہ دے دینا اورتھوڑا بہت اپنے لیے رکھنا۔ (الفروق اللغوية، ص: 196) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی (أَجْوَدَ النَّاسِ) تھے کیونکہ یہ ہر شخص کو وہی کچھ دیتے جو اس کے مناسب حال ہوتا، چنانچہ فقیروں کو مال دیتے، تشنگان علوم کی علمی پیاس بجھاتے اور گم کردہ راہوں کو سیدھا راستہ دکھاتے الغرض حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کے جُود کے تین درجے تھے: (الف)۔ عام طور پر بھی آپ تمام لوگوں سے زیادہ صاحب جودوسخا تھے۔ (ب)۔ رمضان المبارک میں یہ جودوکرم اور بڑھ جاتا تھا۔ (ج)۔ رمضان کی راتیں مذید اس شان جودوکرم میں اضافے کا باعث ہوتیں جبکہ آپ جبرئیل علیہ السلام سے ملاقات فرماتے۔ اس دوران میں کسی سائل کو تہی دامن اور مایوس واپس نہ کرتے حتیٰ کہ اگر قرض بھی لینا پڑتا تو بھی خیرات کا فیض عام جاری رکھنے کے لیے ایسا کرگزرتے تھے۔ 3۔ (الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ) اس ہوا کو کہتے ہیں۔ جوبڑی تیز چلتی ہے اور بارش کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جودوسخا کو اس قسم کی بارش لانے والی ہوا سے تشبیہ دی گئی ہے جو کہ بہت ہی مناسب ہے، چنانچہ جس طرح باران رحمت سے بنجر اور بے آباد زمین سرسبزوشاداب ہو جاتی ہے اسی طرح آپ کے جودوسخا سے بنی نوع انسان کی اجڑی ہوئی دنیا آباد ہوئی اور ہر طرف رشد و ہدایت کے دریا موج زن ہوئے۔ الغرض آپ کے روحانی کمالات سے تمام کائنات فیض یاب ہوئی اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ 4۔ اس حدیث میں سخاوت کے متعلق شوق دلایا گیا ہے، خاص طور پر رمضان المبارک میں دل کھول کراپنا مال خرچ کرنا چاہیے، نیز جب نیکو کار اوراہل خیر سے ملاقات ہو تو بھی فیاضی اوردریا دلی کا مظاہرہ کرناچاہیے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرنی چاہیے اور یہ تلاوت تمام اوراد و اذکار سے افضل اوراعلیٰ ہے۔(فتح الباري: 1؍31) 5۔ (مُدَارَسَه) یہ ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام رمضان میں نازل شدہ قرآن پڑھتےاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سنتے، پھر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت فرماتے اور حضرت جبریل علیہ السلام اس کا سماع فرماتے۔ گویا باری باری قرآن مجید پڑھتے جسے ہمارے ہاں دَور کرنا کہا جاتا ہے۔ آخری سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام سے دومرتبہ دور کیا تاکہ مجموعی طور پر پورے قرآن کی یاد دہانی ہوجائے، نیز یاد رہے کہ یہ آخری دور اسی ترتیب سے ہوا تھا جس ترتیب سے آج ہمارے ہاں قرآن موجود ہے کیونکہ اس آخری دور کے وقت حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود تھے۔ انھوں نے بعد میں اسی ترتیب سے لکھا جس ترتیب سے انھوں نے سنا تھا۔ واضح رہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ترتیب نزولی کے مطابق قرآن جمع کیا تھا اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ترتیب ان کےعلاوہ ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6
تمہید کتاب
وحی کے لغوی معنی پوشیدہ طور پر کسی کو بات بتانا ہیں اور اصطلاح شرع میں اس کلام وپیغام کو وحی کہاجاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی کے لیے حضرات انبیاء علیہ السلام پر نازل ہوا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کا آغاز وحی کے بیان سے فرمایا کیونکہ انسانی رشدوہدایت کے لیے جو ضابطہ حیات اللہ تعالیٰ نے اُتارا ہے اس کاتمام ترانحصار وحی پر ہے،نیز اس نے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے جن شخصیات کا انتخاب کیا ان کی صداقت بھی وحی پر موقوف ہے۔لہذا جب تک وحی کی عظمت سامنے نہ آئے اس وقت تک اسلام کی حقانیت اور حضرات انبیاء علیہ السلام کی صداقت مشکوک رہے گی۔مزیدبرآں یہ بتانا مقصود ہے کہ دین حنیف لوگوں کے جذبات وقیاسات کا مجموعہ نہیں بلکہ اللہ کی مرضیات پر مبنی شرعی احکام کا نام ہے اور اس عالم رنگ وبو میں منشائے الٰہی معلوم کرنے کے لیے انسانوں کو جس قطعی اور یقینی چیز کی ضرورت ہے وہ وحی الٰہی ہے جو سب سے زیادہ قابل اعتبار اور لائق ووثوق ہے جس کے اندر نہ توتغیر کا امکان ہے اور نہ سہو ونسیان ہی کاشائبہ ہے۔اس وحی کی عظمت وشوکت کا کیاحال ہوگا جس کا بھیجنے والامالک ارض وسما لانے والے قدسی صفات کے حامل حضرت جبرئیل علیہ السلام اور وصول کرنے والے جامع الکمالات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ایسی عظیم الشان اور جلیل القدر وحی کہاں سے،کس طرح،کس کے پاس،کون لایا؟کن حالات میں،کس مقام پر اس کا آغاز ہوا؟اس کتاب (بدء الوحي) میں انھی سوالات کا جواب دیاگیا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مخصوص تالیفی اسلوب کے اعتبار سے اس مضمون کو دیگر مضامین میں سے پہلے بیان کرکے غالباً اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ میری اس کتاب میں جو کچھ بیان ہوگا وہ عقائد ہوں یا عبادات ،معاملات ہوں یا اخلاقیات ،اصول ہوں یا فروع،ان سب کا ماخذ وحی الٰہی ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے، خصوصاً رمضان میں جب حضرت جبریل سے آپ کی ملاقات ہوتی تو بہت سخاوت کرتے۔ اور حضرت جبریل رمضان المبارک میں ہر رات آپ سے ملاقات کرتے اور آپ ان کے ساتھ قرآن مجید کا دور فرماتے۔ الغرض رسول اللہ ﷺ صدقہ کرنے میں کھلی (تیز) ہوا سے بھی زیادہ تیز رفتار ہوتے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث کا عنوان سے تعلق اس طرح ہے کہ پہلی حدیث میں نزول وحی کی جگہ کا تعین تھا کہ وحی کا آغاز غارحرا میں ہوا اور اس حدیث میں ابتدائے وحی کا وقت بتایا گیا ہے کہ وہ ماہ رمضان المبارک ہے۔ اس سے وحی کی عظمت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ کسی معمولی چیز کے لیے زمان ومکان کا تعین نہیں کیا جاتا بلکہ اس قسم کا اہتمام کسی اہم اور بلند پایہ چیز ہی کے لیے کیا جاتا ہے۔ 2۔ سخاوت کسی کے سوال کرنے پر دل کے نرم ہونے کی وجہ سے کوئی چیز دینے کا نام ہے جبکہ (جُود) کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز جس کے لیے مناسب ہو، اس کے مانگے بغیر ہی اسے دے د ینا۔ بعض نے اس کا فرق یہ کیا ہے کہ سخاوت کا مطلب کچھ دے دینا اور کچھ اپنے لیے رکھ لینا ہے جبکہ جود کے معنی یہ ہیں کہ زیادہ دے دینا اورتھوڑا بہت اپنے لیے رکھنا۔ (الفروق اللغوية، ص: 196) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی (أَجْوَدَ النَّاسِ) تھے کیونکہ یہ ہر شخص کو وہی کچھ دیتے جو اس کے مناسب حال ہوتا، چنانچہ فقیروں کو مال دیتے، تشنگان علوم کی علمی پیاس بجھاتے اور گم کردہ راہوں کو سیدھا راستہ دکھاتے الغرض حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کے جُود کے تین درجے تھے: (الف)۔ عام طور پر بھی آپ تمام لوگوں سے زیادہ صاحب جودوسخا تھے۔ (ب)۔ رمضان المبارک میں یہ جودوکرم اور بڑھ جاتا تھا۔ (ج)۔ رمضان کی راتیں مذید اس شان جودوکرم میں اضافے کا باعث ہوتیں جبکہ آپ جبرئیل علیہ السلام سے ملاقات فرماتے۔ اس دوران میں کسی سائل کو تہی دامن اور مایوس واپس نہ کرتے حتیٰ کہ اگر قرض بھی لینا پڑتا تو بھی خیرات کا فیض عام جاری رکھنے کے لیے ایسا کرگزرتے تھے۔ 3۔ (الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ) اس ہوا کو کہتے ہیں۔ جوبڑی تیز چلتی ہے اور بارش کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جودوسخا کو اس قسم کی بارش لانے والی ہوا سے تشبیہ دی گئی ہے جو کہ بہت ہی مناسب ہے، چنانچہ جس طرح باران رحمت سے بنجر اور بے آباد زمین سرسبزوشاداب ہو جاتی ہے اسی طرح آپ کے جودوسخا سے بنی نوع انسان کی اجڑی ہوئی دنیا آباد ہوئی اور ہر طرف رشد و ہدایت کے دریا موج زن ہوئے۔ الغرض آپ کے روحانی کمالات سے تمام کائنات فیض یاب ہوئی اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ 4۔ اس حدیث میں سخاوت کے متعلق شوق دلایا گیا ہے، خاص طور پر رمضان المبارک میں دل کھول کراپنا مال خرچ کرنا چاہیے، نیز جب نیکو کار اوراہل خیر سے ملاقات ہو تو بھی فیاضی اوردریا دلی کا مظاہرہ کرناچاہیے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرنی چاہیے اور یہ تلاوت تمام اوراد و اذکار سے افضل اوراعلیٰ ہے۔(فتح الباري: 1؍31) 5۔ (مُدَارَسَه) یہ ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام رمضان میں نازل شدہ قرآن پڑھتےاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سنتے، پھر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت فرماتے اور حضرت جبریل علیہ السلام اس کا سماع فرماتے۔ گویا باری باری قرآن مجید پڑھتے جسے ہمارے ہاں دَور کرنا کہا جاتا ہے۔ آخری سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام سے دومرتبہ دور کیا تاکہ مجموعی طور پر پورے قرآن کی یاد دہانی ہوجائے، نیز یاد رہے کہ یہ آخری دور اسی ترتیب سے ہوا تھا جس ترتیب سے آج ہمارے ہاں قرآن موجود ہے کیونکہ اس آخری دور کے وقت حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود تھے۔ انھوں نے بعد میں اسی ترتیب سے لکھا جس ترتیب سے انھوں نے سنا تھا۔ واضح رہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ترتیب نزولی کے مطابق قرآن جمع کیا تھا اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ترتیب ان کےعلاوہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم کو عبدان نے حدیث بیان کی، انھیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، ان کو یونس نے، انھوں نے زہری سے یہ حدیث سنی۔ (دوسری سند یہ ہے کہ) ہم سے بشر بن محمد نے یہ حدیث بیان کی۔ ان سے عبداللہ بن مبارک نے، ان سے یونس اور معمر دونوں نے، ان دونوں نے زہری سے روایت کی پہلی سند کے مطابق زہری سے عبیداللہ بن عبداللہ نے، انھوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے یہ روایت نقل کی کہ رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ جواد (سخی) تھے اور رمضان میں (دوسرے اوقات کے مقابلہ میں جب) جبرئیل آپ ﷺ سے ملتے بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ جبرئیل رمضان کی ہر رات میں آپ ﷺ سے ملاقات کرتے اور آپ ﷺ کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے، غرض آنحضرت ﷺ لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مناسبت باب سے یہ ہے کہ رمضان شریف میں حضرت جبرئیل آپ ﷺ سے قرآن مجید کا دور کیا کرتے تو معلوم ہوا کہ قرآن یعنی وحی کا نزول رمضان شریف میں شروع ہوا۔ جیسا کہ آیت شریفہ ﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ﴾(البقرة: 185) میں مذکور ہے۔ یہ نزول قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں سماء دنیا کی طرف تھا۔ پھر وہاں سے آنحضرت ﷺ پر نزول بھی رمضان شریف ہی میں شروع ہوا۔ اسی لیے رمضان شریف قرآن کریم کے لیے سالانہ یادگار مہینہ قرار پایا اور اسی لیے اس مبارک ماہ میں آپ اور حضرت جبرئیل قرآن مجید کا باقاعدہ دور فرمایا کرتے تھے۔ ساتھ ہی آپ کے ’’جود‘‘ کا ذکر خیر بھی کیا گیا۔ سخاوت خاص مال کی تقسیم کا نام ہے اور جود کے معنی "اعطاء ما ینبغی لمن ینبغی." کے ہیں جو بہت زیادہ عمومیت لئے ہوئے ہے۔ پس جود مال ہی پر موقوف نہیں۔ بلکہ جوشے بھی جس کے لئے مناسب ہودے دی جائے، اس لئے آپ اجودالناس تھے۔ حاجت مندوں کے لئے مالی سخاوت، تشنگان علوم کے لئے علمی سخاوت، گم راہوں کے لئے فیوض روحانی کی سخاوت، الغرض آپ ہر لحاظ سے تمام بنی نوع انسان میں بہترین سخی تھے۔ آپ کی جملہ سخاوتوں کی تفصیلات کتب احادیث و سیر میں منقول ہیں۔ آپ کی جود و سخاوت کی تشبیہ بارش لانے والی ہواؤں سے دی گئی جوبہت ہی مناسب ہے۔ باران رحمت سے زمین سرسبزوشاداب ہو جاتی ہے۔ آپ کی جودوسخاوت سے بنی نوع انسان کی اجڑی ہوئی دنیا آباد ہو گئی۔ ہر طرف ہدایات کے دریا بہنے لگے۔ خداشناسی اور اخلاق فاضلہ کے سمندر موجیں مارنے لگے۔ آپ کی سخاوت اور روحانی کمالات سے ساری دنیائے انسانیت نے فیض حاصل کئے اور یہ مبارک سلسلہ تا قیام دنیا قائم رہے گا۔ کیوں کہ آپ پر نازل ہونے والا قرآن مجید وحی متلو اور حدیث شریف وحی غیرمتلو تاقیام دنیا قائم رہنے والی چیزیں ہیں۔ پس دنیا میں آنے والے انسان ان سے فیوض حاصل کرتے ہی رہیں گے۔ اس سے وحی کی عظمت بھی ظاہر ہے اور یہ بھی کہ قرآن وحدیث کے معلمین ومتعلمین کو بہ نسبت دوسرے لوگوں کے زیادہ سخی، جواد و وسيع القلب ہونا چاہيے کہ ان کی شان کا یہی تقاضہ ہے۔ خصوصاً رمضان شریف کا مہینہ جودوسخاوت ہی کا مہینہ ہے کہ اس میں ایک نیکی کاثواب کتنے ہی درجات حاصل کرلیتا ہے۔ جیسا کہ نبی ﷺ اس ماہ مبارک میں خصوصیت کے ساتھ اپنی ظاہری وباطنی سخاوتوں کے دریا بہا دیتے تھے۔ سند حدیث: پہلا موقع ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں سند حدیث میں تحویل فرمائی ہے۔ یعنی امام زہری رحمہ اللہ تک سند پہنچا دینے کے بعد پھر آپ دوسری سند کی طرف لوٹ آئے ہیں اور عبدان پہلے استاد کے ساتھ اپنے دوسرے استاد بشر بن محمد کی روایت سے بھی اس حدیث کونقل فرمایا ہے اور زہری پر دونوں سندوں کو یکجا کردیا۔ محدثین کی اصطلاح میں لفظ ح سے یہی تحویل مراد ہوتی ہے۔ اس سے تحویل سند اور سند میں اختصارمقصود ہوتا ہے۔ آگے اس قسم کے بہت سے مواقع آتے رہیں گے۔ بقول علامہ قسطلانی رحمہ اللہ اس حدیث کی سند میں روایت حدیث کی مختلف اقسام تحدیث، اخبار،عنعنہ، تحویل سب جمع ہوگئی ہیں۔ جن کی تفصیلات مقدمہ میں بیان کی جائیں گی۔ان شاءاللہ تعالیٰ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) was the most generous of all the people, and he used to reach the peak in generosity in the month of Ramadan when Gabriel (ؑ) met him. Gabriel (ؑ) used to meet him every night of Ramadan to teach him the Qur'an. Allah's Apostle (ﷺ) was the most generous person, even more generous than the strong uncontrollable wind (in readiness and haste to do charitable deeds).