باب:اس کے بارے میں جس نے علمی مسائل کے لئے اپنی آواز کو بلند کیا
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: Whoever raises his voice in (conveying) knowledge)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
60.
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک سفر میں نبیﷺ ہم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ پھر آپ ہمیں اس حالت میں ملے کہ ہم سے نماز میں دیر ہو گئی تھی اور ہم (جلدی جلدی) وضو کر رہے تھے۔ ہم اپنے پاؤں (خوب دھونے کی بجائے ان) پر مسح کی طرح تر ہاتھ پھیرنے لگے۔ یہ دیکھ کر آپ نے بآواز بلند دو یا تین مرتبہ فرمایا: ’’دوزخ میں جانے والی ایڑیوں پر افسوس!‘‘
تشریح:
1۔ پہلے باب میں سوال کرنے کا طریقہ تھا، اس باب میں جواب دینے کا طریقہ بتایا ہے کہ ازالہ غفلت یا کسی اورمصلحت کے پیش نظر جواب دیتے وقت اپنی آواز کو اونچا کرنا مستحسن ہے۔ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات میں سے ایک صفت بایں الفاظ بیان ہوئی ہے کہ آپ شوروغل نہ فرماتےتھے کیونکہ ضرورت سے زیادہ آواز کا بلند کرنا پیغمبرانہ وقار کے منافی اورآپ کی علمی شان کے بھی خلاف ہے۔ شاید کوئی تعلیم دیتے وقت ضرورت پڑنے پر آواز بلند کرنا قابل اعتراض خیال کرتا ہو، حدیث سے اس خیال کی تردید مقصود ہے کہ اس میں کچھ اندیشہ نہیں، البتہ تکبر یا بے پروائی کی وجہ سے رفع صوت ہو تو قابل مذمت ہے۔ ضرورت کے مواقع حسب ذیل ہیں۔ (الف)۔ سننے والا دور ہے۔ (ب)۔ مجمع کثیر ہے۔ (ج)۔ مضمون کی اہمیت کا تقاضا ایساہے۔ (د)۔ کسی طالب کو ڈانٹنے کے لیے یہ انداز اختیار کیاجاسکتا ہے۔ (ھ)۔ حدیث میں ہے کہ جب آپ خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتیں، آواز بلند ہوجاتی اور آپ کاغصہ تیز ہوجاتا۔ (صحيح مسلم، الجمعة، حدیث 2005(867)) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے رمز شناس یہ بھی لکھتے ہیں کہ اس عنوان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ فرمایا ہے کہ میں نے اپنی کتاب میں احادیث لکھتے وقت بڑی محنت اٹھائی ہے، ان کی جمع و تدوین اور حسن ترتیب میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ (فتح الباري: 190/1) 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد لوگوں کوآگاہ کرنا تھا کہ جلدی میں وضو کرتے وقت اپنی ایڑیوں کو خشک نہ رہنے دیں جیسا کہ عام طور پر جلدی میں پاؤں کا کچھ حصہ خشک رہ جاتاہے۔ یہ خشکی ان ایڑیوں کو دوزخ میں لے جائے گی، نیز "أعقاب" سے مراد صاحب اعقاب ہیں۔ یعنی وضو کرتے وقت جن کی ایڑیاں خشک رہیں گی، انھیں جہنم میں ڈالا جائے گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
60
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
60
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
60
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
60
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک سفر میں نبیﷺ ہم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ پھر آپ ہمیں اس حالت میں ملے کہ ہم سے نماز میں دیر ہو گئی تھی اور ہم (جلدی جلدی) وضو کر رہے تھے۔ ہم اپنے پاؤں (خوب دھونے کی بجائے ان) پر مسح کی طرح تر ہاتھ پھیرنے لگے۔ یہ دیکھ کر آپ نے بآواز بلند دو یا تین مرتبہ فرمایا: ’’دوزخ میں جانے والی ایڑیوں پر افسوس!‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ پہلے باب میں سوال کرنے کا طریقہ تھا، اس باب میں جواب دینے کا طریقہ بتایا ہے کہ ازالہ غفلت یا کسی اورمصلحت کے پیش نظر جواب دیتے وقت اپنی آواز کو اونچا کرنا مستحسن ہے۔ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات میں سے ایک صفت بایں الفاظ بیان ہوئی ہے کہ آپ شوروغل نہ فرماتےتھے کیونکہ ضرورت سے زیادہ آواز کا بلند کرنا پیغمبرانہ وقار کے منافی اورآپ کی علمی شان کے بھی خلاف ہے۔ شاید کوئی تعلیم دیتے وقت ضرورت پڑنے پر آواز بلند کرنا قابل اعتراض خیال کرتا ہو، حدیث سے اس خیال کی تردید مقصود ہے کہ اس میں کچھ اندیشہ نہیں، البتہ تکبر یا بے پروائی کی وجہ سے رفع صوت ہو تو قابل مذمت ہے۔ ضرورت کے مواقع حسب ذیل ہیں۔ (الف)۔ سننے والا دور ہے۔ (ب)۔ مجمع کثیر ہے۔ (ج)۔ مضمون کی اہمیت کا تقاضا ایساہے۔ (د)۔ کسی طالب کو ڈانٹنے کے لیے یہ انداز اختیار کیاجاسکتا ہے۔ (ھ)۔ حدیث میں ہے کہ جب آپ خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتیں، آواز بلند ہوجاتی اور آپ کاغصہ تیز ہوجاتا۔ (صحيح مسلم، الجمعة، حدیث 2005(867)) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے رمز شناس یہ بھی لکھتے ہیں کہ اس عنوان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ فرمایا ہے کہ میں نے اپنی کتاب میں احادیث لکھتے وقت بڑی محنت اٹھائی ہے، ان کی جمع و تدوین اور حسن ترتیب میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ (فتح الباري: 190/1) 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد لوگوں کوآگاہ کرنا تھا کہ جلدی میں وضو کرتے وقت اپنی ایڑیوں کو خشک نہ رہنے دیں جیسا کہ عام طور پر جلدی میں پاؤں کا کچھ حصہ خشک رہ جاتاہے۔ یہ خشکی ان ایڑیوں کو دوزخ میں لے جائے گی، نیز "أعقاب" سے مراد صاحب اعقاب ہیں۔ یعنی وضو کرتے وقت جن کی ایڑیاں خشک رہیں گی، انھیں جہنم میں ڈالا جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے ابوبشر سے بیان کیا، انھوں نے یوسف بن ماہک سے، انھوں نے عبداللہ بن عمرو سے، انھوں نے کہا ایک سفر میں جو ہم نے کیا تھا آنحضرت ﷺ ہم سے پیچھے رہ گئے اور آپ ﷺ ہم سے اس وقت ملے جب (عصر کی) نماز کا وقت آن پہنچا تھا ہم (جلدی جلدی) وضو کر رہے تھے۔ پس پاؤں کو خوب دھونے کے بدل ہم یوں ہی سا دھو رہے تھے۔ (یہ حال دیکھ کر) آپ ﷺ نے بلند آواز سے پکارا دیکھو ایڑیوں کی خرابی دوزخ سے ہونے والی ہے دو یا تین بار آپ ﷺ نے (یوں ہی بلند آواز سے) فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
بلند آواز سے کوئی بات کرنا شان نبوی کے خلاف ہے کیونکہ آپ کی شان میں "لیس بصخاب" آیا ہے کہ آپ شور وغل کرنے والے نہ تھے مگریہاں حضرت امام قدس سرہ نے یہ باب منعقد کرکے بتلا دیا کہ مسائل کے اجتہاد کے لیے آپ کبھی آواز کو بلند بھی فرمادیتے تھے۔ خطبہ کے وقت بھی آپ کی یہی عادت مبارکہ تھی جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپﷺ جب خطبہ دیتے تو آپ کی آواز بلند ہو جایا کرتی تھی۔ ترجمہ باب اسی سے ثابت ہوتا ہے۔ آپ کا مقصد لوگوں کو آگاہ کرنا تھا کہ جلدی کی وجہ سے ایڑیوں کو خشک نہ رہنے دیں، یہ خشکی ان ایڑیوں کو دوزخ میں لے جائیں گی۔ یہ سفر مکہ سے مدینہ کی طرف تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr (RA): Once the Prophet (ﷺ) remained behind us in a journey. He joined us while we were performing ablution for the prayer which was over-due. We were just passing wet hands over our feet (and not washing them properly) so the Prophet (ﷺ) addressed us in a loud voice and said twice or thrice: "Save your heels from the fire."