تشریح:
1۔ پہلے باب میں سوال کرنے کا طریقہ تھا، اس باب میں جواب دینے کا طریقہ بتایا ہے کہ ازالہ غفلت یا کسی اورمصلحت کے پیش نظر جواب دیتے وقت اپنی آواز کو اونچا کرنا مستحسن ہے۔ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات میں سے ایک صفت بایں الفاظ بیان ہوئی ہے کہ آپ شوروغل نہ فرماتےتھے کیونکہ ضرورت سے زیادہ آواز کا بلند کرنا پیغمبرانہ وقار کے منافی اورآپ کی علمی شان کے بھی خلاف ہے۔ شاید کوئی تعلیم دیتے وقت ضرورت پڑنے پر آواز بلند کرنا قابل اعتراض خیال کرتا ہو، حدیث سے اس خیال کی تردید مقصود ہے کہ اس میں کچھ اندیشہ نہیں، البتہ تکبر یا بے پروائی کی وجہ سے رفع صوت ہو تو قابل مذمت ہے۔ ضرورت کے مواقع حسب ذیل ہیں۔
(الف)۔ سننے والا دور ہے۔ (ب)۔ مجمع کثیر ہے۔ (ج)۔ مضمون کی اہمیت کا تقاضا ایساہے۔ (د)۔ کسی طالب کو ڈانٹنے کے لیے یہ انداز اختیار کیاجاسکتا ہے۔ (ھ)۔ حدیث میں ہے کہ جب آپ خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتیں، آواز بلند ہوجاتی اور آپ کاغصہ تیز ہوجاتا۔ (صحيح مسلم، الجمعة، حدیث 2005(867))
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے رمز شناس یہ بھی لکھتے ہیں کہ اس عنوان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ فرمایا ہے کہ میں نے اپنی کتاب میں احادیث لکھتے وقت بڑی محنت اٹھائی ہے، ان کی جمع و تدوین اور حسن ترتیب میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ (فتح الباري: 190/1)
3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد لوگوں کوآگاہ کرنا تھا کہ جلدی میں وضو کرتے وقت اپنی ایڑیوں کو خشک نہ رہنے دیں جیسا کہ عام طور پر جلدی میں پاؤں کا کچھ حصہ خشک رہ جاتاہے۔ یہ خشکی ان ایڑیوں کو دوزخ میں لے جائے گی، نیز "أعقاب" سے مراد صاحب اعقاب ہیں۔ یعنی وضو کرتے وقت جن کی ایڑیاں خشک رہیں گی، انھیں جہنم میں ڈالا جائے گا۔