تشریح:
(1) اس حدیث سے پڑوسی کی عظمت کا پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ایسے انسان کے ایمان کی نفی کی ہے جس کی اذیتوں اور تکلیفوں نے پڑوسی کی ناک میں دم کر رکھا ہو، اگرچہ ایمان کی نفی سے مراد کمالِ ایمان کی نفی ہے، یعنی وہ شخص کامل ایمان والا نہیں ہے کیونکہ یہ ایک معصیت اور نافرمانی ہے اور معصیت کا مرتکب دائرۂ ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے اپنے پڑوسی کی شکایت کی، آپ نے فرمایا: ’’جاؤ، صبر کرو۔‘‘ وہ پھر آپ کے پاس آیا یا تین مرتبہ آیا تو آپ نے فرمایا: ’’جا، اپنا سامان راستے میں رکھ دو۔‘‘ چنانچہ وہ گیا اور اپنا سازوسامان راستے میں رکھ دیا۔ لوگ اس سے پوچھنے لگے تو اس نے انھیں اپنے پڑوسی کے کردار سے آگاہ کیا۔ لوگ اس پڑوسی کو طعن وملامت کرنے لگے: اللہ اس کے ساتھ ایسا کرے ، ایسا کرے، چنانچہ وہ ہمسایہ اس کے پاس آیا اور کہنے لگا: اپنے گھر واپس چلے جاؤ، آئندہ میری طرف سے کوئی ناپسندیدہ حرکت نہیں دیکھو گے۔ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:5153) اس حدیث میں ہمسائے کی اذیتوں اور تکلیفوں سے علاج کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ واللہ المستعان