تشریح:
(1) دن کے اوقات میں کاروباری مصروفیات اور دیگر مشاغل کی وجہ سے انسان گھریلو ضروریات کے متعلق اہل خانہ سے تبادلۂ خیالات اور باہمی مشاورت کےلیے فرصت نہیں پاسکتا، اس لیے رات کے وقت کھانے وغیرہ سے فراغت کے بعد بیوی بچوں سے بات چیت کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے، نیز مہمان کی آمد کا کوئی طے شدہ وقت نہیں ہوتا، وہ کسی بھی وقت حاضر ہوسکتا ہے۔ عشاء کے بعد اس کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت پیش آسکتی ہے، اس لیے شریعت نے ایسی ہنگامی ضروریات کا خیال رکھا ہے۔ امام بخاری ؒ اللہ چونکہ بندوں کی ضروریات کے ساتھ نصوص پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں، اس لیے آپ نے قائم کردہ عنوان کو درج بالا حدیث سے ثابت کیا ہے۔
(2) اس حدیث سے درج ذیل مسائل کا اثبات ہوتا ہے:٭جب لوگوں پر رزق کی تنگی ہوتو حاکم وقت ان کی کفالت بقدر وسعت دوسرے لوگوں پر ڈال سکتا ہے۔ ٭رئیس قوم کے ساتھ کھانا تناول کرنے کی گنجائش ہے، اگرچہ گھر میں مہمان موجود ہوں۔ ٭صاحب منزل کی طرح دیگر افراد کو بھی چاہیے کہ وہ مہمانوں کا پورا پورا خیال رکھیں۔ ٭مہمانوں کو چاہیے کہ وہ صاحب منزل کے احترام کے پیش نطر کھانے کے لیے اس کا انتطار کریں۔ ٭کوئی بابرکت چیز گھر میں آئے تو اہل علم اور صاحبان فضل کوبھی اس میں شریک کرنا چاہیے۔٭اولیاء کی کرامات برحق ہیں، لیکن اہل بدعت نے اس آڑ میں جو شاخسانہ کھڑا کیا ہے وہ خود ساختہ ہے۔٭کسی کوتاہی پر خوف اور ڈر کے پیش نظر اپنے والد یا بڑے کی نگاہوں سے اوجھل ہوجانا جائز ہے۔٭اولاد کو کسی کوتاہی کی وجہ سے ڈانٹ پلانا اور اسے برا بھلا کہنا درست ہے۔٭اگر کسی ناروابات پر قسم اٹھالی جائے تو اسے توڑا جاسکتا ہے۔٭اگر ضرورت سے زائد کھانا موجود ہو تو اگلے دن کےلیے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔٭اگر صاحب منزل نے ہدایت کردی ہو تو مہمان کو اس کی عدم موجودگی میں کھانا کھالینا چاہیے۔ (عمدة القاري :142/4)
(3) چونکہ کتاب المواقیت کا اختتام ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے حسب عادت براعت اختتام کا پوراپورا خیال رکھا ہے۔ اس حدیث میں (مضى الأجل) کے الفاظ ہیں۔ ان سے موت کی طرف اشارہ ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہر وقت موت کی تیاری میں رہے۔ دنیا کی مہلت کسی بھی وقت ختم ہوسکتی ہے۔ والله المستعان.