تشریح:
(1) اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ اذان کی مشروعیت حضرت عمر ؓ کے کہنے سے ہوئی، حالانکہ ایسا نہیں ہے، چنانچہ تفصیلی روایات سے پتاچلتا ہے کہ مدینہ طیبہ آنے کے بعد نماز کے لیے جمع ہونے کے متعلق مسلمانوں کو حسب ذیل تین مراحل سے گزرنا پڑا:٭نماز کے وقت کا اندازہ لگا کر مسجد میں جمع ہو جاتے اور نماز پڑھ لیتے۔ اس کا نقصان یہ ہوتا کہ کچھ لوگ پہلے آجاتے جبکہ ایسا کرنے سے ان کا کاروبار متاثر ہوتا۔ اور کچھ لوگ وقت کے بعد آتے، اس سے نماز میں تاخیر ہوجاتی۔٭ اس کے بعد باہمی مشورے سے طے پایا کہ کسی آدمی کو متعین کردیا جائے جو بلند جگہ پر کھڑا ہو کر نماز کے وقت الصلاة جامعة کے الفاظ سے نما ز کے وقت کااعلان کردیا کرے۔ یہ تجویز حضرت عمر ؓ کی تھی جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے، چنانچہ اس پر عمل شروع ہوگیا۔٭آخر کار حضرت عبداللہ بن زید ؓ کو خواب میں ایک شخص نے اذان کی تعلیم دی تو انھوں نےاپنا خواب رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا، آپ نے فرمایا کہ یہ سچا خواب ہے، چنانچہ آپ کے حکم پر جب حضرت بلال ؓ اذان دے رہے تھے تو حضرت عمر ؓ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے گھر سے نکلے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: میں نے بھی اس طرح کا خواب دیکھا ہے۔ (سنن أبي داود، الأذان، حدیث:499) اس کے بعد اذان دینے کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔
(2) حضرت عبداللہ بن زید ؓ کے خواب کی تفصیل اس طرح ہے کہ انھیں خواب میں ایک (سبز پوش) آدمی ملا جس نے ناقوس اٹھا رکھا تھا۔ میں نے اس سے یہ ناقوس خریدنا چاہا تو اس نے پوچھا: اس کا کیا کرو گے؟ میں نے کہا: اسے بجا کر لوگوں کو نماز کی دعوت دیں گے تو اس نے کہا: میں تجھے اس سے بہتر طریقہ نہ بتاؤں؟ چنانچہ اس نے نماز کے لیے اذان اور اقامت کے کلمات تلقین کیے۔ (سنن أبي داود، الأذان، حدیث:499)
(3) اذان کےلیے حضرت بلال ؓ کا انتخاب درج ذیل تین وجوہات کی بنا پر کیا گیا: ٭روایت میں وضاحت ہے کہ خواب دیکھنے والے حضرت عبداللہ بن زید ؓ بیمار تھے اور بلال ؓ اس وقت موجود تھے۔ ٭حضرت بلال خوش الحان اور بلند آواز تھے۔ اذان دینے کے لیے ان دو اوصاف کا حامل ہونا ضروری ہے۔ ٭مکہ مکرمہ میں حضرت بلال ؓ نے کفار قریش کے ہاتھوں کلمۂ توحید کی خاطر سخت تکالیف برداشت کی تھیں، اس لیے غلبۂ اسلام کے وقت بھی کلمۂ توحید کا اعلان انھی کے حصے میں آیا۔ والله أعلم.
(4) اس سے معلوم ہوا کہ اذان کی مشروعیت مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد ہوئی۔