باب: بچے کے ساتھ رحم وشفقت کرنا ، اسے بوسہ دینا اور گلے سے لگانا
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: To be merciful to children and embrace them)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ثابت ؓنے حضرت انسؓ سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ( اپنے صاحبزادے ) حضرت ابراہیم ؓ کو گود میں لیا اور انہیں بوسہ دیا اور اسے سونگھا ۔یہ اثر حضرت امام بخاری نے کتاب الجنائز میں وصل کیا ہے۔
6048.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میرے پاس ایک عورت آئی جس کے ساتھ دو بچیاں تھیں وہ مجھ سے کچھ مانگتی تھیں۔ اس نے ایک کھجور کے علاوہ میرے پاس کچھ نہ پایا چنانچہ میں اسے وہی ایک کھجور دے دی۔ اس نے وہ کھجور انھی دونوں کے درمیان تقسیم کر دی پھر اٹھ کر چلی گئی اس کے بعد نبی ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے سارا ماجرا بیان کیا آپ نے فرمایا: جو شخص بھی ان بیٹیوں کی پرورش کرے گا اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے گا تو یہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بن جائیں گی۔
تشریح:
(1) بیٹیوں سے اچھا سلوک کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ان کی خورونوش اور وغیرہ کا اہتمام کرے۔ ان کی حسب وسعت پوری پوری کفالت کرے، اپنے بیٹوں کو ان پر ترجیح نہ دے، پھر ان کا نکاح کرے اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے صحیح انتخاب کرے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بچیوں کی پرورش کرنا، ان سے محبت وشفقت سے پیش آنا بہت بڑا نیکی کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کو دوزخ سے دور رکھے گا جو اس صنف نازک سے اچھا برتاؤ کرتا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ بیٹیوں کا حق بیٹوں کے حق سےزیادہ مضبوط اور مؤکد ہے کیونکہ وہ کمزور اور صنف نازک ہونے کے باعث روزی کمانے، حسن تصرف اور بلند رائے رکھنے سے قاصر ہوتی ہیں۔ پھر جب وہ بیوہ ہوتی ہیں تو والد کے پاس لوٹ آتی ہیں۔ (فتح الباري:257/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5771
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5995
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5995
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5995
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو کتاب الجنائز (حدیث :1303) میں متصل سند سے بھی بیان کیا ہے ۔
ثابت ؓنے حضرت انسؓ سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ( اپنے صاحبزادے ) حضرت ابراہیم ؓ کو گود میں لیا اور انہیں بوسہ دیا اور اسے سونگھا ۔یہ اثر حضرت امام بخاری نے کتاب الجنائز میں وصل کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میرے پاس ایک عورت آئی جس کے ساتھ دو بچیاں تھیں وہ مجھ سے کچھ مانگتی تھیں۔ اس نے ایک کھجور کے علاوہ میرے پاس کچھ نہ پایا چنانچہ میں اسے وہی ایک کھجور دے دی۔ اس نے وہ کھجور انھی دونوں کے درمیان تقسیم کر دی پھر اٹھ کر چلی گئی اس کے بعد نبی ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے سارا ماجرا بیان کیا آپ نے فرمایا: جو شخص بھی ان بیٹیوں کی پرورش کرے گا اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے گا تو یہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بن جائیں گی۔
حدیث حاشیہ:
(1) بیٹیوں سے اچھا سلوک کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ان کی خورونوش اور وغیرہ کا اہتمام کرے۔ ان کی حسب وسعت پوری پوری کفالت کرے، اپنے بیٹوں کو ان پر ترجیح نہ دے، پھر ان کا نکاح کرے اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے صحیح انتخاب کرے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بچیوں کی پرورش کرنا، ان سے محبت وشفقت سے پیش آنا بہت بڑا نیکی کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کو دوزخ سے دور رکھے گا جو اس صنف نازک سے اچھا برتاؤ کرتا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ بیٹیوں کا حق بیٹوں کے حق سےزیادہ مضبوط اور مؤکد ہے کیونکہ وہ کمزور اور صنف نازک ہونے کے باعث روزی کمانے، حسن تصرف اور بلند رائے رکھنے سے قاصر ہوتی ہیں۔ پھر جب وہ بیوہ ہوتی ہیں تو والد کے پاس لوٹ آتی ہیں۔ (فتح الباري:257/10)
ترجمۃ الباب:
ثابت نے حضرت انس ؓسے روایت کرتے ہوئے کہا کہ نبی ﷺ نے (اپنے شہزادے) ابراہیم کو گود میں لیا انہیں بوسہ دیا اور سونگھا
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن ابی بکر نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ میرے یہاں ایک عورت اس کے ساتھ دو بچیاں تھیں، وہ مانگنے آئی تھی۔ میرے پاس سے سوا ایک کھجور کے اسے اور کچھ نہ ملا۔ میں نے اسے وہ کھجور دے دی اور اس نے وہ کھجور اپنے دونوں لڑکیوں کو تقسیم کر دی۔ پھر اٹھ کر چلی گئی اس کے بعد حضور اکرم ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ جو شخص بھی اس طرح کی لڑکیوں کی پرورش کرے گا اور ان کے ساتھ اچھا معاملہ کرے گا تو یہ اس کے لیے جہنم سے پردہ بن جائیں گی۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بچیوں کا پالنا محبت شفقت سے ان کو رکھنا بہت بڑا نیک کام ثابت ہوا جو ایسا کرنے والے کو دوزخ سے دور کر دے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : (the wife of the Prophet) A lady along with her two daughters came to me asking me (for some alms), but she found nothing with me except one date which I gave to her and she divided it between her two daughters, and then she got up and went away. Then the Prophet (ﷺ) came in and I informed him about this story. He said, "Whoever is in charge of (put to test by) these daughters and treats them generously, then they will act as a shield for him from the (Hell) Fire."