تشریح:
(1) احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیبت کی تعریف مذکور ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہوتی ہے؟‘‘ صحابۂ کرام نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ علم ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے جو اسے ناگوار ہو۔‘‘ پوچھا گیا: اگر میرے بھائی میں وہ بات پائی جاتی ہے جو میں کہہ رہا ہوں تو پھر؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر اس میں وہ بات پائی جائے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اس میں وہ بات موجود نہ ہو تو تم نے اس پر بہتان لگایا۔‘‘ ( صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث:6593(2589))
(2) یہ تو واضح بات ہے کہ بہتان غیبت سے بھی بڑا جرم ہے اور غیبت، خواہ زندہ انسان کی اس کی عدم موجودگی میں کی جائے یا کسی فوت شدہ انسان کی، جرم کی نوعیت کے لحاظ سے اس میں کوئی فرق نہیں۔ غیبت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مردے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے کیونکہ غیبت کرنے والا اس کی غیرت پر حملہ آور ہوتا ہے جیسے اسے کاٹ کاٹ کر کھا رہا ہو اور مردہ اس لیے فرمایا کہ جس کی غیبت کی جا رہی ہے وہ پاس موجود نہیں ہوتا۔
(3) اس حدیث میں بھی غیبت کی قباحت اور خرابی کو بیان کیا ہے اگرچہ عنوان میں غیبت کا ذکر ہے اور حدیث میں نمیمہ کا بیان ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ان دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ ناپسندیدہ بات عدم موجودگی میں کی جاتی ہے، اگرچہ بعض روایات میں غیبت کے الفاظ بھی مروی ہیں۔ (فتح الباري:577/10) ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب مجھے معراج کرائی گئی تو میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو ناخنوں سے چھیل رہے تھے۔ میں نے پوچھا: ’’اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟‘‘ انھوں نے بتایا یہ وہ ہیں جو دوسروں کا گوشت کھاتے اور ان کی عزتوں سے کھیلتے تھے۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:4878)
(4)واضح رہے کہ اس حدیث میں بڑے گناہ سے مراد وہ جرائم ہیں جن کے ارتکاب پر حد مقرر ہے، جیسے: زنا اور چوری وغیرہ بصورت دیگر غیبت کرنا کوئی چھوٹا کام نہیں، البتہ اس پر کوئی شرعی حد لاگو نہیں ہوتی۔ واللہ أعلم