تشریح:
(1) یہ حقیقت تھی کہ وہ بُرا آدمی ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسے نہ تھے، آپ نے تو اپنی نیک عادت کے مطابق ہر برے بھلے آدمی سے نرم مزاجی اور اچھے اخلاق سے پیش آنا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ لوگوں کو اس کے متعلق آگاہ کرنے کے لیے آپ نے ایسا کیا تاکہ کوئی دوسرا اس کے دام فریب میں نہ پھنس جائے، لہٰذا یہ صورت غیبت سے مستثنیٰ ہوگی۔
(2) ہمارے رجحان کے مطابق درج ذیل صورتیں غیبت سے مستثنیٰ ہیں: ٭ مظلوم آدمی، حاکم کے سامنے ظالم کی غیبت کر کے اپنے ظلم کی فریاد کر سکتا ہے کیونکہ اس کے بغیر عدالتی نظام نہیں چل سکتا، اسی طرح فتویٰ لینے کے لیے مفتی کے سامنے بھی ظلم کی داستان بیان کی جا سکتی ہے۔ ٭کسی شخص کے شر سے بچنے کے لیے اپنے مومن بھائی کو اس کے عیب سے مطلع کیا جا سکتا ہے، مثلاً: اگر کوئی شخص کسی سے رشتہ کرنا چاہتا ہو اور وہ دوسرے سے مشورہ لے تو اسے اس کے عیوب سے مطلع کرنا ضروری ہے۔ ٭محدثین کا قانونِ جرح وتعدیل، جس پر ذخیرۂ احادیث کی جانچ پڑتال کا انحصار ہے، اس صورت میں راویوں کے عیب بیان کرنا ممنوعہ غیبت میں شمار نہیں ہوگا، ایسا کرنا جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے۔ ٭ ایسے لوگوں کے خلاف علی الاعلان آواز بلند کرنا اور ان کی برائیوں کو بیان کرنا جو فسق وفجور پھیلا رہے ہوں یا بدعات کی اشاعت کر رہے ہوں یا وہ لوگوں کے بے حیائی اور بےغیرتی میں مبتلا کر رہے ہوں، یہ تمام صورتیں غیبت میں شامل نہیں جس پر وعید آئی ہے۔ واللہ أعلم