تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت ودیانت پر حملہ کرنے والا یہ شخص منافق تھا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر امین اور دیانت دار کوئی انسان آج تک دنیا میں پیدا ہی نہیں ہوا۔ آپ کی امانت ودیانت کے قائل تو کفار مکہ بھی تھے۔ بہر حال نیک طینت لوگوں کے حق میں اگر کوئی نازیبا بات کہی جائے تو ان پر گراں گزرتی ہے لیکن وہ اپنے سے پہلے گزرے ہوئے اہل فضل کی اقتدا کرتے ہوئے صبر کرتے ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصائب وآلام پر صبر کرنے میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی اقتدا کی۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان اور حدیث سے مقصود یہ ہے کہ کسی کی بات نقل کرنے سے اگر اصلاح واخلاص کی نیت ہو تو ایسا کرنا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات نقل کرنے پر خاموش رہے بلکہ جس نے بات کہی تھی اس پر اظہار ناراضی فرمایا اور اگر اس کا مقصد فساد ڈالنا اور خرابی پیدا کرنا ہوتو ایسا کرنا جائز نہیں۔ (فتح الباري:584/10)