تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادوگر لبید بن اعصم پر قدرت رکھنے کے باوجود اسے سزا نہیں دی بلکہ اس پر صبر کیا اور برائی کو دبا دیا۔ آپ نے فرمایا : ’’مجھے پسند نہیں کہ میں لوگوں شرکی تشہیر کروں۔‘‘ اس ارشاد کے دو معنی ہیں: ٭ مشتہر کرنے سے خطرہ تھا کہ مسلمان اسے پکڑ کر سزا دیں گے خواہ مخواہ ایک شور برپا ہوگا، آپ نے صبر سے کام لیتے ہوئے امن پسندی کا مظاہرہ کیا۔ ٭مشتہر کرنے سے یہ بھی اندیشہ تھا کہ منافقین جادو سیکھ لیں گے اور مسلمانوں کو اس سے نقصان پہنچائیں گے، لہٰذا آپ نے اس معاملے کو دبا دیا۔
(2) اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات کسی بڑے فساد اور شرکی روک تھام کے لیے مصلحت کو اختیار کیا جاتا ہے۔ مذکورہ آیات سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم سے منع کیا ہے اور وضاحت فرمائی کہ ظلم کا وبال ظالم کو پہنچتا ہے، پھر مظلوم کی مدد اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لے رکھی ہے، لہٰذا مظلوم کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسان کا شکر ادا کرتے ہوئے خود پر روا رکھے گئے ظلم وستم سے درگزر کرے اور ظالم کو معاف کر دے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادوگر کو معاف کر دیا تھا اور اسے کسی قسم کی سزا نہیں دی۔واللہ أعلم