قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَدَبِ (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالعَدْلِ وَالإِحْسَانِ، وَإِيتَاءِ ذِي القُرْبَى، وَيَنْهَى عَنِ الفَحْشَاءِ وَالمُنْكَرِ وَالبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ} [النحل: 90])

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِهِ: {إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ} [يونس: 23] {ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنْصُرَنَّهُ اللَّهُ} [الحج: 60] وَتَرْكِ إِثَارَةِ الشَّرِّ عَلَى مُسْلِمٍ أَوْ كَافِرٍ

6063. حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: مَكَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَا وَكَذَا، يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَأْتِي أَهْلَهُ وَلاَ يَأْتِي، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقَالَ لِي ذَاتَ يَوْمٍ: يَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللَّهَ أَفْتَانِي فِي أَمْرٍ اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ: أَتَانِي رَجُلاَنِ، فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رِجْلَيَّ وَالآخَرُ عِنْدَ رَأْسِي، فَقَالَ الَّذِي عِنْدَ رِجْلَيَّ لِلَّذِي عِنْدَ رَأْسِي: مَا بَالُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: مَطْبُوبٌ، يَعْنِي مَسْحُورًا، قَالَ: وَمَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ أَعْصَمَ، قَالَ: وَفِيمَ؟ قَالَ: فِي جُفِّ طَلْعَةٍ ذَكَرٍ فِي مُشْطٍ وَمُشَاقَةٍ، تَحْتَ رَعُوفَةٍ فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «هَذِهِ البِئْرُ الَّتِي أُرِيتُهَا، كَأَنَّ رُءُوسَ نَخْلِهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ، وَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الحِنَّاءِ» فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُخْرِجَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَهَلَّا، تَعْنِي تَنَشَّرْتَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَّا اللَّهُ فَقَدْ شَفَانِي، وَأَمَّا أَنَا فَأَكْرَهُ أَنْ أُثِيرَ عَلَى النَّاسِ شَرًّا» قَالَتْ: وَلَبِيدُ بْنُ أَعْصَمَ، رَجُلٌ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ، حَلِيفٌ لِيَهُودَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ یونس میں فرمان ” بلا شبہ تمہاری سرکشی اور ظلم تمہارے ہی جانوں پر آئے گی “ اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ حج میں فرمان ” پھر اس پر ظلم کیا گیا تو اللہ اس کی یقینا مدد کرے گا ۔ “ اور اس باب میں فساد بھڑکانے کی برائی کا بھی بیان ہے مسلمان پر ہو یا کافر پر ۔تشریح : یہ مطلب حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جادو کی حدیث ذیل سے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کے جواب میں فرمایا تھا کہ اللہ نے اب مجھ کو تو تندرست کردیا۔ اب میں نے فساد بھڑکانا اور شور پھیلانا مناسب نہ سمجھا کیونکہ لبید بن اعصم نے جادو کیا تھا وہ کافر تھا میں اسے شہرت دوں تو خطرہ ہے کہ لوگ لبید کو پکڑیں سزا دیں خواہ مخواہ شورش پیدا ہو۔ اس سے آنحضرتﷺ کی امن پسندی ظاہر ہے۔

6063.

سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا نبی ﷺ اتنے اتنے دن اس حال میں رہے آپ کو خیال ہوتا کہ اپنی بیوی کے پاس گئے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہوتا تھا حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا کہ آپ ﷺ نے ایک دن مجھ سے فرمایا: عائشہ! میں نے اللہ تعالٰی سے ایک معماملے میں سوال کیا تھا تو اس نے مجھے حقیقت حال سے آگاہ کر دیا ہے: میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے پاؤں کے پاس اور دوسرا میرے سر کے قریب بیٹھ گیا۔ جو میرے پاؤں کے پاس تھا اس نے سر کے قریب بیٹھنے والے سے کہا کہ اس آدمی کا حال کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ اس پر جادو کر دیا گیا ہے۔ اس نے پوچھا: کس نے کیا ہے؟ اس نے کہا : ”لبید بن اعصم نے کیا ہے۔ پوچھا: کس چیز میں کیا ہے؟ بتایا کہ کنگھی کے بالوں کو نر کھجور کے چھلکے میں ڈال کر ذروان نامی کنویں میں ایک پتھر کے نیچے رکھ کر جادو کیا ہے۔“ نبی ﷺ وہاں تشریف کے گئے آپ نے فرمایا: ”یہی کنواں مجھے دکھایا گیا تھا، گویا اس کی کھجوروں کے سر شیطانوں کے سر ہیں اور اس کا پانی مہندی کے رنگ جیسا ہے۔“ پھر اس جادو کو نبی ﷺ کے حکم سے برآمد کیا گیا۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نےاسے نشر کیوں نہیں کیا؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اللہ نے مجھے شفا دے دی ہے اور میں اس بات کو پسند نہیں کرتا تاکہ لوگوں میں اس شر کی تشہیر کروں۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: لبید بن اعصم قبیلہ بنو زریق سے یہودیوں کا حلیف تھا۔