تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث سے باہمی حسد اور آپس میں قطع تعلقی کو بیان کیا ہے کہ ایسا کرنا حرام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حسد ایک انتہائی بری خصلت ہے جو اللہ تعالیٰ کے فیصلوں اور اس پر راضی نہ رہنے کی وجہ سے آتی ہے کیونکہ کسی کے پاس اللہ کی نعمت دیکھ کر جلنے کا نام حسد ہے۔
(2) حسد کے بعد انسان میں بغاوت پیدا ہوتی ہے اور یہ دونوں چیزیں افراد، خاندانوں اور قوموں کی تباہی کا باعث ہیں۔اسی طرح ایک دوسرے سے روگردانی کرنا اور پیٹھ پھیرنا بھی شریعت کو پسند نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’جس نے ایک سال تک اپنے بھائی سے روابط توڑے رکھے تو وہ ایسے ہے جیسے اس کا خون بہا دیا ہو۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:4915) اگر کہیں شکر رنجی ہو جائے تو تعلقات کو بالکل ہی منقطع کر لینا جائز نہیں، ہاں اگر مزید تعلقات بڑھانا خلاف مصلحت ہو تو سلام دعا سے بخل نہیں کرنا چاہیے۔
(3) یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ تین دن سے زیادہ قطع تعلقی اس صورت میں ناجائز ہے جب کسی دنیاوی غرض سے یا اپنی ذات کے لیے ہو، اگر اللہ تعالیٰ کے لیے ہے تو ایسا کرنا اللہ کو محبوب ہے جیسا کہ امام ابو داود رحمہ اللہ نے ایک حدیث کے تحت فرمایا ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے چالیس دن تک میل جول چھوڑ دیا تھا اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مرتے دم تک اپنے بیٹے سے بائیکاٹ کیے رکھا تھا۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، تحت حدیث4916)
(4) بہرحال سلام کرنے اور اس کا جواب دینے سے بائیکاٹ کا گناہ ختم ہو جاتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ سلام کہنے کے بعد اگر وہ جواب دے دے تو اجرو ثواب میں دونوں شریک ہو گئے اور اگر وہ سلام کا جواب نہ دے تو سلام کرنے والا اس بائیکاٹ کے گناہ سے نکل جاتا ہے۔ (الأدب المفرد، حدیث:414)