تشریح:
(1) اقامت کے طاق کلمات کی وضاحت بایں طور ہے:(الله أكبر، الله أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمداً رسول الله، حي علي الصلاة، حي علي الفلاح، قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله) (سنن أبي داود، الأذان، حدیث:498) کلمات اذان کو دو مرتبہ اور اقامت کو ایک ایکمرتبہ کہنے میں حکمت یہ ہے کہ اذان سے غیر موجود حضرات کو اطلاع دینا مقصود ہے، اس لیے باربار کلمات کو دہرایا جاتا ہے تاکہ دور رہنے والے لوگوں کو خبر ہوجائے جبکہ اقامت سے صرف موجود لوگوں کو مطلع کرنا مقصود ہوتا ہے،اس لیے اسے ایک ایک مرتبہ کہا جاتا ہے اور اس میں قد قامت الصلاة کو دو مرتبہ کہنے میں یہ حکمت ہے کہ اقامت کہنے سے مقصود بالذات یہی ہے، یعنی حاضرین کو بتایا جائے کہ اب نماز کھڑی ہوچکی ہے۔ اذان کو بآواز بلند اور اقامت کو آہستہ آہستہ کہنے میں بھی یہی حکمت کار فرما ہے۔ والله أعلم. (فتح الباري :112/2) (2) ایک روایت میں ہے کہ اذان اور اقامت میں کلمات کو دودو مرتبہ کہا جائے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 194) لیکن یہ روایت ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ (ضعیف الترمذي، للألباني، حدیث:29) البتہ اقامت کے کلمات دودو مرتبہ کہنا بھی جائز ہے، لیکن ایک ایک مرتبہ کہنے والی احادیث زیادہ صحیح ہیں۔ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ اگر اذان دوہری کہی جائے جس کے انیس کلمات ہیں تو اس وقت تکبیر بھی دوہری ہونی چاہیے جس کے سترہ کلمات ہیں (سنن أبي داود، الأذان، حدیث:502) اور اگر عبداللہ بن زید کے خواب والی اکہری اذان دی جائے جس کے پندرہ کلمات ہیں تو اس وقت اقامت بھی اکہری ہونی چاہیے جس کے گیارہ کلمات ہیں۔ (سنن أبي داود، الأذان، حدیث:499) (3) بعض حضرات نے اس روایت کے پیش نظر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ حدیث:605 میں إلا الإقامة کے الفاظ حدیث کا حصہ نہیں بلکہ ایوب راوی نے اپنی طرف سے بطور وضاحت ذکر کیے ہیں۔اس موقف کی تائید میں ان کا کہنا ہے کہ ابو قلابہ سے روایت کرنے والے ایوب اور خالد الخداء ہیں اور مؤخر الذکر راوی جب حدیث بیان کرتےہیں تو وہ ان الفاظ کو بیان نہیں کرتے،لیکن یہ موقف مبنی برحقیقت نہیں کیونکہ ایوب راوی سے متصل سند کے ساتھ معمر نے اس حدیث کو بایں الفاظ بیان کیا ہے:حضرت بلال ؓ اذان کے کلمات دودو مرتبہ اور اقامت کے ایک ایک مرتبہ کہتے، البتہ قد قامت الصلاة کے الفاظ دودو مرتبہ کہتے تھے، نیز علامہ اسماعیلی ؒ نے اسی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث بایں الفاط بیان کی ہے:حضرت بلال ؓ قد قامت الصلاة کے الفاظ دو مرتبہ کہتے تھے۔اصل بات یہ ہے کہ حدیث میں جو الفاظ بیان ہوں وہ حدیث کا حصہ ہوتے ہیں۔ ہاں، اگر کوئی قرینہ یا دلیل آجائے تو انھیں الحاق یا مدرج قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ اس مقام پر کوئی قرینہ نہیں ہے کہ إلا الإقامة کے الفاظ کو مدرج قرار دیا جاسکے۔ تائید میں جو بات کہی گئی ہے وہ اس لیے صحیح نہیں کہ ابو قلابہ سے اگرچہ خالد الخداء نے ان الفاظ کو بیان نہیں کیا،تاہم جب ان سے ایوب بیان کرتا ہے تو مذکورہ الفاظ کو ذکر کرتا ہے اور محدثین کے اصول کے مطابق ثقہ راوی کا اضافہ، جبکہ وہ اوثق یا ثقات کی مخالفت نہ کررہا ہو، قبول ہوتا ہے۔ (فتح الباري:110/2)