تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اس سے گناہوں کا اقرار کرائے گا تو وہ یقین کرے گا کہ میں تو ہلاک ہو گیا، اس وقت اللہ تعالیٰ گناہوں پر پردہ پوشی بلکہ اپنی طرف سے معافی کی بشارت دے گا۔ نیز لوگوں کے سامنے اسے رسوائی سے بچانے کے لیے صرف نیکیوں کا اعمال نامہ اسے دیا جائے گا۔ اس کے برعکس کافر اور منافق کو سرعام ذلیل ورسوا کرے گا اور اس کے خلاف گواہی دینے والے کہیں گے: ’’یہی وہ لوگ تھے جو اپنے رب پر جھوٹ باندھتے تھے۔ سن لو! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، المظالم، حدیث:2441)
(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تمام احادیث پر نظر رکھتے ہوئے بڑی جامع بحث کی ہے کہ اہل ایمان میں سے گناہ گاروں کی دو قسمیں ہوں گی: ایک وہ گناہ گار جن کے گناہ صرف اللہ تعالیٰ کے حقوق سے متعلق ہوں گے اور دوسرے وہ گناہ گار جنھوں نے حقوق العباد میں کوتاہی کی ہوگی۔ جن کے گناہ صرف حقوق اللہ سے متعلق ہوں گے ان کی پھر دوقسمیں ہیں: ایک وہ جن پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پردہ ڈلا ہوگا، انھیں تو معاف کر دیا جائے گا۔ اور دوسرے وہ جنھوں نے اپنے گناہوں کو نشر کیا ہوگا، انھیں معاف نہیں کیا جائے گا۔ جن کے گناہ حقوق العباد سے متعلق ہوں گے، ان کی بھی دوقسمیں ہوں گی: ایک وہہ جن کی برائیاں، نیکیوں سے زیادہ ہوں گی تو انھیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ وہ سزا پا کر یا سفارش سے جہنم سے نکل آئیں گے۔ دوسرے وہ جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی، ان سے بدلہ لے کر جنت میں داخلے کی اجازت مل جائے گی جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ (فتح الباري:600/10، وصحیح البخاري، المظالم، حدیث2440)
(3) بہرحال انسان کوچاہیے کہ وہ اپنے گناہوں کی خود ہی پردہ دری نہ کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جن برائیوں سے اللہ نے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرو اگر کوئی ان کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ انھیں نشرنہ کرے بلکہ اللہ کے پردے میں انھیں چھپائے رکھے۔‘‘ (المستدرك للحاکم:272/4)