باب: اس شخص کا گناہ جس کا پڑوسی اس کے شرسے امن میں نہ رہتا ہو
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: The person whose neighbour does not feel safe from his evil)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
قرآن مجید میں جو لفظ ” یوبقھن “ ہے اس ہے معنی ان کو ہلاک کرڈالے ۔ موبقاً کے معنی ہلاکت ۔
6070.
حضرت ابو شریح ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”واللہ! وہ ایمان والا نہیں واللہ! اہو ایمان والا نہیں، واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔“ عرض کی گئی: اللہ کے رسول! کون؟ آپ نے فرمایا: ”جس کا ہمسایہ اس کی اذیتوں سے محفوظ نہ ہو۔“ شبابہ اور اسد بن موسیٰ نے عاصم بن علی کی متابعت کی ہے اور حمید بن اسود، عثمان بن عمر، ابو بکر بن عیاش اور شعیب بن اسحاق نے ابن ابی ذئب سے اس نے سعید مقبری سے انہوں نے (اس حدیث کو) حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بیان کیا ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے پڑوسی کی عظمت کا پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ایسے انسان کے ایمان کی نفی کی ہے جس کی اذیتوں اور تکلیفوں نے پڑوسی کی ناک میں دم کر رکھا ہو، اگرچہ ایمان کی نفی سے مراد کمالِ ایمان کی نفی ہے، یعنی وہ شخص کامل ایمان والا نہیں ہے کیونکہ یہ ایک معصیت اور نافرمانی ہے اور معصیت کا مرتکب دائرۂ ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے اپنے پڑوسی کی شکایت کی، آپ نے فرمایا: ’’جاؤ، صبر کرو۔‘‘ وہ پھر آپ کے پاس آیا یا تین مرتبہ آیا تو آپ نے فرمایا: ’’جا، اپنا سامان راستے میں رکھ دو۔‘‘ چنانچہ وہ گیا اور اپنا سازوسامان راستے میں رکھ دیا۔ لوگ اس سے پوچھنے لگے تو اس نے انھیں اپنے پڑوسی کے کردار سے آگاہ کیا۔ لوگ اس پڑوسی کو طعن وملامت کرنے لگے: اللہ اس کے ساتھ ایسا کرے ، ایسا کرے، چنانچہ وہ ہمسایہ اس کے پاس آیا اور کہنے لگا: اپنے گھر واپس چلے جاؤ، آئندہ میری طرف سے کوئی ناپسندیدہ حرکت نہیں دیکھو گے۔ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:5153) اس حدیث میں ہمسائے کی اذیتوں اور تکلیفوں سے علاج کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5793
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6016
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6016
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6016
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے بوائقہ کی مناسبت سے دو قرآنی الفاظ کی تفسیر بیان فرمائی ہے جو حسب ذیل ہیں: ٭(أَوْ يُوبِقْهُنَّ بِمَا كَسَبُوا) "یا ان کی کمائی کی وجہ سے انھیں ہلاک کردے گا۔"٭(وَجَعَلْنَا بَيْنَهُم مَّوْبِقًا ﴿٥٢﴾) "اور ہم نے ان کے درمیان ایک ہلاکت کا مقام کھڑا کردیا۔"
قرآن مجید میں جو لفظ ” یوبقھن “ ہے اس ہے معنی ان کو ہلاک کرڈالے ۔ موبقاً کے معنی ہلاکت ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو شریح ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”واللہ! وہ ایمان والا نہیں واللہ! اہو ایمان والا نہیں، واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔“ عرض کی گئی: اللہ کے رسول! کون؟ آپ نے فرمایا: ”جس کا ہمسایہ اس کی اذیتوں سے محفوظ نہ ہو۔“ شبابہ اور اسد بن موسیٰ نے عاصم بن علی کی متابعت کی ہے اور حمید بن اسود، عثمان بن عمر، ابو بکر بن عیاش اور شعیب بن اسحاق نے ابن ابی ذئب سے اس نے سعید مقبری سے انہوں نے (اس حدیث کو) حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے پڑوسی کی عظمت کا پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ایسے انسان کے ایمان کی نفی کی ہے جس کی اذیتوں اور تکلیفوں نے پڑوسی کی ناک میں دم کر رکھا ہو، اگرچہ ایمان کی نفی سے مراد کمالِ ایمان کی نفی ہے، یعنی وہ شخص کامل ایمان والا نہیں ہے کیونکہ یہ ایک معصیت اور نافرمانی ہے اور معصیت کا مرتکب دائرۂ ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے اپنے پڑوسی کی شکایت کی، آپ نے فرمایا: ’’جاؤ، صبر کرو۔‘‘ وہ پھر آپ کے پاس آیا یا تین مرتبہ آیا تو آپ نے فرمایا: ’’جا، اپنا سامان راستے میں رکھ دو۔‘‘ چنانچہ وہ گیا اور اپنا سازوسامان راستے میں رکھ دیا۔ لوگ اس سے پوچھنے لگے تو اس نے انھیں اپنے پڑوسی کے کردار سے آگاہ کیا۔ لوگ اس پڑوسی کو طعن وملامت کرنے لگے: اللہ اس کے ساتھ ایسا کرے ، ایسا کرے، چنانچہ وہ ہمسایہ اس کے پاس آیا اور کہنے لگا: اپنے گھر واپس چلے جاؤ، آئندہ میری طرف سے کوئی ناپسندیدہ حرکت نہیں دیکھو گے۔ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:5153) اس حدیث میں ہمسائے کی اذیتوں اور تکلیفوں سے علاج کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
«یوبفھن» کے معنیٰ ہیں: ان کو ہلاک کرے گا اور « موبقا» کے معنیٰ ہیں: ہلاکت کا مقام
حدیث ترجمہ:
ہم سے عاصم بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید نے بیان کیا، ان سے ابو شریح نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم ﷺ نے بیان کیا واللہ! وہ ایمان والا نہیں، واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ عرض کیا گیا کون یا رسول اللہ؟ فرمایا وہ جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔ اس حدیث کو شبابہ اور اسد بن موسی نے بھی روایت کیا ہے اورحمید بن اسود اورعثمان بن عمر اور ابو بکر بن عیاش اور شعیب بن اسحاق نے اس حدیث کو ابن ابی ذئب سے یوں روایت کیا ہے، انہوں نے مقبری سے، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Shuraih (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "By Allah, he does not believe! By Allah, he does not believe! By Allah, he does not believe!" It was said, "Who is that, O Allah's Apostle?" He said, "That person whose neighbor does not feel safe from his evil."