تشریح:
(1) اس حدیث کے مطابق فخرو غرور اور تکبر کرنا اہل جہنم کی علامت ہے، یعنی دوزخ میں متکبرین کی کثرت ہوگی۔
(2) حافظ ابن حجر نے تکبر کی دوقسمیں ذکر کی ہیں: ٭جس کے افعال حسنہ دوسروں کے محاسن سے زیادہ ہوں، اللہ تعالیٰ کی صفت متکبر اسی معنی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام افعال اچھے اور قابل مدح ہیں۔ ٭اس سلسلے میں تکلف سے کام لیتے ہوئے کوئی اپنے افعال اچھے ظاہر کرے، حالانکہ حقیقت میں وہ ایسا نہ ہو، حدیث میں متکبر اسی معنی میں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ ہر متکبر، سخت گیر کےدل پر مہر لگا دیتا ہے۔‘‘ (المؤمن40: 35) اگر کوئی اپنے دل میں خود کو بڑا خیال کرتا ہے تو اسے کبر(عجب) کہا جاتا ہے اور اگر یہ برائی اعضاء اور جوارح پر ظاہر ہو تو اسے تکبر سے تعبیر کرتے ہیں۔ (فتح الباري:601/10)