تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں اذان کے بجائے تاذین کے الفاظ استعمال کیے ہیں تاکہ الفاظ حدیث سے مطابقت ہو، کیونکہ حدیث میں تاذین کا لفظ آیا ہے۔ اگرچہ تاذین کا لفظ مؤذن کے قول وفعل اور اس کی ہیئت وغیرہ سب کو شامل ہے، لیکن اس مقام پر صرف اذان کے الفاظ مراد ہیں، چنانچہ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے :’’ تاکہ وہ اس کی آواز نہ سن سکے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:856 (389)) (2) عنوان سے اس حدیث کے مطابقت بایں طور ہے کہ یہ صرف اذان کی فضیلت ہے جس کی آواز سن کر شیطان بھاگنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اگرچہ اذان کی فضیلت میں متعدد احادیث وارد ہیں، لیکن امام بخاری ؒ نے صرف مذکورہ حدیث کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ اذان سے متعلق دیگر فضائل کو متعدد نیک اعمال سے حاصل کیا جاسکتا ہے جبکہ شیطان کے بھاگنے کی خصوصیت صرف اذان سے وابستہ ہے۔ والله أعلم. (3) شیطان سے ہوا کا خارج ہونا بعید از امکان نہیں، کیونکہ اس کابھی ایک جسم ہے جسے غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے گوز مارنے کی کئی ایک وجوہات ہیں:٭اذان کی وجہ سے اس پر بوجھ پڑتا ہے، وہ اس دباؤ کی وجہ سے ہوا خارج کرتا ہے۔ ٭وہ اس نازیبا حرکت سے اذان کے ساتھ مذاق کرتا ہے، جیسا کہ غیر مذہب لوگوں کا شیوہ ہو۔ ٭وہ دانستہ یہ کام کرتا ہے تاکہ اذان کی آواز اس کے کانوں میں نہ آسکے، کیونکہ جب قریب شور برپا ہوتو دور کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ (فتح الباري:113/2) (4) اذان سنتے ہی شیطان اس قسم کے حالات سے دوچار ہوتا ہے جیسے کسی آدمی کو انتہائی پریشان کن اور دہشت ناک معاملہ پیش آگیا ہو۔ ایسے شدید حالات میں خوف کی وجہ سے انسان کے جوڑ ڈھیلے پڑجاتے ہیں اور اسے اپنے آپ پر کنٹرول نہیں رہتا۔ اس بے بسی کے عالم میں اس کا پیشاب اور ہوا از خود خارج ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ شیطان لعین بھی جب اذان سنتا ہے تو اس کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے، یعنی وہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ وہ مقام روحاء تک بھاگتا چلا جاتا ہے تاکہ اذان کی آواز نہ سن سکے اور مقام روحاء مدینہ طیبہ سے 36 میل کے فاصلے پر ہے۔ (فتح الباري:113/2) (5) اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ شیطان، انسان کو دوران نماز میں ایسی باتیں یاد دلاتا ہے جو اسے بھول چکی ہوتی ہیں، کیونکہ بھولی بسری باتوں کی طرف انسان زیادہ متوجہ ہوتا ہے، اس لیے بھولی باتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے وگرنہ شیطان کا کام نمازی کے خشوع خضوع کو برباد کرنا ہے، اس کے لیے وہ ہر چارہ کرتا ہے ۔ وہ نمازی کو مشغول کرنے کےلیے یاد باتوں کا وسوسہ بھی ڈالتا ہے اور اسے سوچ بچار میں مبتلا کرنے کےلیے بھولی ہوئی باتیں بھی یاد دلاتا ہے۔ ان باتوں کا تعلق دنیوی معاملات سے بھی ہوسکتا ہے اور دینی امور سے بھی حتی کہ قرآنی آیات کے معانی اور اس کے اسرارورموز کے ذریعے سے بھی غافل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ (6) تثويب کے لغوی معنی لوٹنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں اس کے کئی ایک معانی ہیں، مثلا: اذان کے بعد مؤذن کا لوگوں کو نماز کے لیے بلانا بھی تثويب کہلاتا ہے۔ شریعت نے اس فعل کو ناپسند کیا ہے۔ اسی طرح صبح کی نماز میں ''الصلاة خير من النوم'' کہنے کو بھی تثويب کہا جاتا ہے، لیکن اس حدیث میں تثويب سے مراد نماز کی اقامت ہے ۔ چونکہ امامت کہتے وقت مؤذن دوبارہ اذان کے الفاظ کی طرف لوٹتا ہے اور انھیں دہراتا ہے، اس لیے اقامت کو تثويب کہا گیا ہے۔صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے کہ جب شیطان اقامت سنتا ہے تو دوبارہ بھاگ جاتا ہے۔(صحیح مسلم، المساجد، حدیث:856(389))(7) اس حدیث سے بظاہر اذان کی فضیلت نماز سے زیادہ معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اذان سے شیطان بھاگ جاتا ہے، جبکہ دوران نماز میں وہ واپس آکر وسوسہ اندازی شروع کردیتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے نماز ہی کو فضیلت اور برتری حاصل ہے، کیونکہ ہر چیز کے خواص الگ الگ ہوتے ہیں۔ بسا اوقات ایک کم قیمت چیز کے وہ فوائد ہوتے ہیں جو اس سے بہتر چیز میں نہیں پائے جاتے، مثلا: سنامکی کی خاصیت ہے کہ وہ قبض کشا ہے، حالانکہ خمیرہ مروارید سے وہ بہت کم درجے کی ہے، علاوہ ازیں خمیرہ مروارید قبض کشا بھی نہیں ہوتا۔ اذان میں شہادتین کا اعلان ہوتا ہے اور احادیث کے مطابق مؤذن جب اذان دیتا ہے تو حد آواز تک ہر چیز اس کے ایمان وعمل کی گواہی دے گی جبکہ شیطان کو یہ بات گوارا نہیں کہ اس کے عمل و ایمان کی کوئی چیز گواہی دے، اس لیے وہ اذان سننے کی تاب نہیں لاسکتا۔ نماز میں یہ خاصہ نہیں ہے، اگرچہ وہ افضل عبادت ہے۔ نماز میں مناجات اور سرگوشی ہوتی ہے، اس لیے نماز شروع ہوتے ہی شیطان لوٹ آتا ہے اور طرح طرح کی وسوسہ اندازی شروع کردیتا ہے۔والله أعلم.