صحیح بخاری
78. کتاب: اخلاق کے بیان میں
43. باب :اللہ تعالیٰ کا سورۃ حجرات میں فرمانا کہ ” اے ایمان والو ! کوئی قوم کسی دوسری قوم کامذاق نہ بنائے اسے حقیر نہ جانا جائے کیا معلوم شاید وہ ان سے اللہ کے نزدیک بہتر ہو ۔ ” فاولئک ھم الظالمون “ تک ۔
باب :اللہ تعالیٰ کا سورۃ حجرات میں فرمانا کہ ” اے ایمان والو ! کوئی قوم کسی دوسری قوم کامذاق نہ بنائے اسے حقیر نہ جانا جائے کیا معلوم شاید وہ ان سے اللہ کے نزدیک بہتر ہو ۔ ” فاولئک ھم الظالمون “ تک ۔
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: "...Let not a group scoff at another group..")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6097.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے میدان منیٰ میں فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ کون سا دن ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے آپ نے فرمایا: یہ حرمت والا دن ہے۔ فرمایا: تم جانتے ہو یہ کون سا شہر ہے؟ صحابہ نے عرض کیا۔ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے آپ نے فرمایا: ”یہ حرمت والا شہر ہے۔“ تم جانتے ہو یہ کون سا مہینہ ہے؟ صحابہ نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے آپ نے فرمایا: ”یہ حرمت والا مہینہ ہے۔“ پھر فرمایا: ”ے شک اللہ تعالٰی نے تم پر ایک دوسرے کا خون، مال اور عزتیں حرام ہیں جیسے اس دن کو تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں حرمت والا بنایا ہے۔“
تشریح:
مسلمان کا ناحق خون بہانا، بلا وجہ اس کا مال لوٹنا اور اس کی عزت وناموس پر حملہ کرنا بہت بڑا جرم ہے، بلکہ اسے حقیر خیال کرنا بھی شریعت کو پسند نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا ارشاد گرامی ہے: ’’مسلمان کو اتنا ہی شر کافی ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو حقیر خیال کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے خون، مال اور عزت کو حرام کیا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث:6541(2564)) مذکورہ حدیث کے مطابق ایک مسلمان کی عزت وآبرو مکہ شہر کی حرمت کے برابر ہے۔ کاش! مسلمان ان باتوں کا خیال رکھیں اور ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھیں۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5820
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6043
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6043
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6043
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے میدان منیٰ میں فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ کون سا دن ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے آپ نے فرمایا: یہ حرمت والا دن ہے۔ فرمایا: تم جانتے ہو یہ کون سا شہر ہے؟ صحابہ نے عرض کیا۔ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے آپ نے فرمایا: ”یہ حرمت والا شہر ہے۔“ تم جانتے ہو یہ کون سا مہینہ ہے؟ صحابہ نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے آپ نے فرمایا: ”یہ حرمت والا مہینہ ہے۔“ پھر فرمایا: ”ے شک اللہ تعالٰی نے تم پر ایک دوسرے کا خون، مال اور عزتیں حرام ہیں جیسے اس دن کو تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں حرمت والا بنایا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
مسلمان کا ناحق خون بہانا، بلا وجہ اس کا مال لوٹنا اور اس کی عزت وناموس پر حملہ کرنا بہت بڑا جرم ہے، بلکہ اسے حقیر خیال کرنا بھی شریعت کو پسند نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا ارشاد گرامی ہے: ’’مسلمان کو اتنا ہی شر کافی ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو حقیر خیال کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے خون، مال اور عزت کو حرام کیا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث:6541(2564)) مذکورہ حدیث کے مطابق ایک مسلمان کی عزت وآبرو مکہ شہر کی حرمت کے برابر ہے۔ کاش! مسلمان ان باتوں کا خیال رکھیں اور ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھیں۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عاصم بن محمد بن زید نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھے میرے والد اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے (حجۃ الوداع) کے موقع پر منیٰ میں فرمایا تم جانتے ہو یہ کون سا دن ہے؟ صحابہ بولے اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا تو یہ حرمت والا دن ہے ”تم جانتے ہو یہ کونسا شہر ہے؟ صحابہ بولے اللہ اوراس رسول کو زیادہ علم ہے، فرمایا یہ حرمت والا شہر ہے۔ تم جانتے ہو یہ کو نسا مہینہ ہے؟ صحابہ بولے اللہ اور اس کے رسول کوزیادہ علم ہے فرمایا یہ حرمت والا مہینہ ہے۔ پھر فرمایا بلاشبہ اللہ نے تم پر تمہارا (ایک دوسرے کا) خون، مال اور عزت اسی طرح حرام کیا ہے جیسے اس دن کواس نے تمہارے اس مہینہ میں اور تمہارے اس شہر میں حرمت والا بنایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث کا مضمون کسی مزید تشریح کا محتاج نہیں ہے۔ ایک مومن کی عزت فی الواقع بڑی اہم چیز ہے گویا اس کی عزت اور حرمت مکہ شہر جیسا مقام رکھتی ہے پس اس کی بے عزتی کرنا مکہ شریف کی بے عزتی کرنے کے برابر ہے۔ مومن کا خون نا حق کعبہ شریف کے ڈھا دینے کے برابر ہے مگر کتنے لوگ ہیں جو ان چیزوں کا خیال رکھتے ہیں۔ اس حدیث کی روشنی میں اہل اسلام کی باہمی حالت پر صد درجہ افسوس ہوتا ہے۔ اس مقام پر بخاری شریف کا مطالعہ فرمانے والے نیک دل مسلمانوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کعبہ شریف کے سامنے کھڑے ہو کر فرمایا تھا کہ بے شک کعبہ ایک معزز گھر ہے اس کی تقدیس میں کوئی شبہ نہیں مگر ایک مومن ومسلمان کی عزت وحرمت بھی بہت بری چیز ہے اور کسی مسلمان کی بے عزتی کرنے والا کعبہ شریف کو ڈھا دینے والے کے برابر ہے۔ قرآن پاک میں اللہ نے فرمایا إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْمسلمان مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ پس آپس میں اگر کچھ ناچاقی بھی ہو جائے تو ان کی صلح صفائی کرا دیا کرو۔ ایک حدیث میں آپس کی صلح صفائی کرا دینے کو نفل نمازوں اور روزوں سے بھی بڑھ کر نیک عمل بتایا گیا ہے۔ پس مطالعہ فرمانے والے بھائیوں بہنوں کا اہم ترین فرض ہے کہ وہ آپس میں میل محبت رکھیں اور اگر آپس میں کچھ ناراضگی بھی ہو جائے تو اسے رفع دفع کر دیا کریں مومن جنتی بندوں کی قرآن میں یہ علامت بتلائی گئی ہے کہ وہ غصہ کو پی جانے والے اورلوگوں سے ان کی غلطیوں کو معاف کر دینے والے ہوا کرتے ہیں۔ نماز روزہ کے مسائل پر توجہ دینا جتنا ضروری ہے اتنا ہی ضروری یہ بھی ہے کہ ایسے مسائل پر بھی توجہ دی جائے اورآپس میں زیادہ سے زیادہ میل محبت ہو۔ اخوت، بھائی چارہ بڑھا یا جائے۔ حسد ، کینہ دلوں میں رکھنا سچے مسلمانوں کی شان نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : The Prophet (ﷺ) said at Mina, "Do you know what day is today?" They (the people) replied, "Allah and His Apostle (ﷺ) know better," He said "Today is 10th of Dhul-Hijja, the sacred (forbidden) day. Do you know what town is this town?" They (the people) replied, "Allah and His Apostle (ﷺ) know better." He said, "This is the (forbidden) Sacred town (Makkah a sanctuary)." And do you know which month is this month?" They (the People) replied, "Allah and His Apostle (ﷺ) know better." He said, ''This is the Sacred (forbidden) month ." He added, "Allah has made your blood, your properties and your honor Sacred to one another (i.e. Muslims) like the sanctity of this day of yours in this month of yours, in this town of yours." (See Hadith No. 797, Vol. 2.)