تشریح:
(1) غزوۂ حنین کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نئے نئے مسلمانوں کی تالیف قلبی کے لیے اقرع بن حابس کو سو اونٹ، عیینہ بن حصن کو سو اونٹ اور قریش کے سرداروں کو سو، سو اونٹ دیے تو حاضرین میں سے ایک آدمی نے اعتراض کیا کہ اس تقسیم میں عدل و انصاف سے کام نہیں لیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر اللہ اور اس کا رسول عدل و انصاف نہیں کریں گے تو دنیا میں عدل کا علمبردار کون ہو گا۔‘‘ (صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث:3150)
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ السلام کو دی جانے والی اذیت سے درج ذیل آیت کی طرف اشارہ فرمایا: ’’اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تکلیف دی تھی تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی بتائی ہوئی باتوں سے بری کر دیا کیونکہ وہ اللہ کے ہاں بڑی عزت والے تھے۔'' (الأحزاب33: 69)
(3) حافظ ابن حجر نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اذیت کے متعلق تین قصوں کا ذکر کیا ہے: ایک یہ کہ موسیٰ علیہ السلام ایک جسمانی نقص کا شکار تھے، دوسرا ہارون علیہ السلام کی موت اور تیسرا قارون کے ساتھ ان کا واقعہ تھا۔ (فتح الباري:630/10) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صبر سے کام لیا اور بے ہودہ بات کہنے والے کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ صلی اللہ علیہ وسلم