Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Calling bad names and cursing)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6101.
حضرت ثابت بن ضحاک ؓ سے روایت ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ اصحاب شجرہ سے تھے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ملت اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی قسم اٹھائی تو وہ اپنے کہنے کے مطابق بن جاتا ہے۔ ابن آدم کا ایسی چیز کے متعلق نذر ماننا صحیح نہیں جس کا وہ مالک نہیں۔ جس نے دنیا میں خود کو کسی چیز کے ساتھ قتل کیا تو قیامت کے دن اسی کے ساتھ اسے سزا دی جائے گی۔ جس نے کسی مومن پر لعنت کی تو یہ اس کو قتل کرنے کے مترادف ہے اور جس نے کسی مسلمان کو کفر سے مہتم کیا تو اس کو مار ڈالنے کی طرح ہے۔
تشریح:
(1) ملت اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی قسم اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں نے فلاں کام کیا تو میں یہودی یا نصرانی ہوں، ایسی صورت میں وہ وہی ہوگا جو اس نے کہا۔ (2) اس حدیث میں پانچ احکام بیان ہوئے ہیں جن کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے، سردست عنوان کا اعتبار کرتے ہوئے یہ بیان کرتے ہیں کہ مومن پر لعنت کرنا بہت بڑا جرم ہے، گویا اسے قتل کرنا ہے کیونکہ لعنت کے معنی اللہ کی رحمت سے دور کرنا ہیں، اس طرح اسے لعنت کر کے وہ اس سے آخرت کے منافع ختم کرنا چاہتا ہے۔ حدیث میں ہے: ’’بندہ جب کسی پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے، اس کے آگے آسمان کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، پھروہ زمین کی طرف اترتی ہے تو اس کے آگے زمین کے دروازے بھی بند کر دیے جاتے ہیں، پھر وہ دائیں اور بائیں جاتی ہے، اگر اسے کہیں جگہ نہ ملے تو جس پر لعنت کی گئی ہو اس پر واقع ہو جاتی ہے، بشرطیکہ وہ اس کا حق دار ہو بصورت دیگر وہ لعنت، کہنے والے پر لوٹ جاتی ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:4905)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5824
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6047
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6047
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6047
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
حضرت ثابت بن ضحاک ؓ سے روایت ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ اصحاب شجرہ سے تھے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ملت اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی قسم اٹھائی تو وہ اپنے کہنے کے مطابق بن جاتا ہے۔ ابن آدم کا ایسی چیز کے متعلق نذر ماننا صحیح نہیں جس کا وہ مالک نہیں۔ جس نے دنیا میں خود کو کسی چیز کے ساتھ قتل کیا تو قیامت کے دن اسی کے ساتھ اسے سزا دی جائے گی۔ جس نے کسی مومن پر لعنت کی تو یہ اس کو قتل کرنے کے مترادف ہے اور جس نے کسی مسلمان کو کفر سے مہتم کیا تو اس کو مار ڈالنے کی طرح ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ملت اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی قسم اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں نے فلاں کام کیا تو میں یہودی یا نصرانی ہوں، ایسی صورت میں وہ وہی ہوگا جو اس نے کہا۔ (2) اس حدیث میں پانچ احکام بیان ہوئے ہیں جن کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے، سردست عنوان کا اعتبار کرتے ہوئے یہ بیان کرتے ہیں کہ مومن پر لعنت کرنا بہت بڑا جرم ہے، گویا اسے قتل کرنا ہے کیونکہ لعنت کے معنی اللہ کی رحمت سے دور کرنا ہیں، اس طرح اسے لعنت کر کے وہ اس سے آخرت کے منافع ختم کرنا چاہتا ہے۔ حدیث میں ہے: ’’بندہ جب کسی پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے، اس کے آگے آسمان کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، پھروہ زمین کی طرف اترتی ہے تو اس کے آگے زمین کے دروازے بھی بند کر دیے جاتے ہیں، پھر وہ دائیں اور بائیں جاتی ہے، اگر اسے کہیں جگہ نہ ملے تو جس پر لعنت کی گئی ہو اس پر واقع ہو جاتی ہے، بشرطیکہ وہ اس کا حق دار ہو بصورت دیگر وہ لعنت، کہنے والے پر لوٹ جاتی ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:4905)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عثمان بن عمر نے، کہا ہم سے علی بن مبارک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابو قلابہ نے کہ ثابت بن ضحاک ؓ اصحاب شجر (بیعت رضوان کرنے والوں) میں سے تھے، انہوں نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو اسلام کے سوا کسی اور مذہب پر قسم کھائے (کہ اگر میں نے فلاں کام کیا تو میں نصرانی ہوں، یہودی ہوں) تو وہ ایسا ہو جائے گا جیسے کہ اس نے کہا اور کسی انسان پر ان چیزوں کی نذر صحیح نہیں ہوتی جو اس کے اختیار میں نہ ہوں اور جس نے دنیا میں کسی چیز سے خود کشی کر لی اسے اسی چیز سے آخرت میں عذاب ہوگا اور جس نے کسی مسلمان پر لعنت بھیجی تو یہ اس کے خون کرنے کے برابر ہے اور جو شخص کسی مسلمان کو کافر کہے تو وہ ایسا ہے جیسے اس کا خون کیا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ثابت بن ضحاک ان بزرگوں میں سے ہیں جنہوں نے صلح حدیبیہ کے موقع پر ایک درخت کے نیچے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر جہاد کی بیعت کی تھی جس کا ذکر سورۃ فتح میں ہے کہ اللہ ان مومنوں سے راضی ہو گیا جو درخت کے نیچے برضا ورغبت جہاد کی بیعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر کر رہے تھے حدیث کا مضمون ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Thabit bin Ad-Dahhak (RA) : (who was one of the companions who gave the pledge of allegiance to the Prophet (ﷺ) underneath the tree (Al-Hudaibiya)) Allah's Apostle (ﷺ) said, "Whoever swears by a religion other than Islam (i.e. if somebody swears by saying that he is a non-Muslim e.g., a Jew or a Christian, etc.) in case he is telling a lie, he is really so if his oath is false, and a person is not bound to fulfill a vow about a thing which he does not possess. And if somebody commits suicide with anything in this world, he will be tortured with that very thing on the Day of Resurrection; And if somebody curses a believer, then his sin will be as if he murdered him; And whoever accuses a believer of Kufr (disbelief), then it is as if he killed him."