تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاہلوں کی جہالت پر صبر کرتے، بدویوں کی سختی برداشت کرتے اور ان سے درگزر فرماتے تھے۔ اگر کسی سے کوئی قصور سرزد ہوتا تو اس کا نام لیے بغیر اصلاح کی کوشش فرماتے۔ آپ کی نرمی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سرے سے باز پرس نہ کرتے بلکہ برسرعام ان لوگوں کی تشہیر نہ کرتے تھے۔
(2) کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مباح چیزوں سے پرہیز کو تقویٰ کی بلندی خیال کرتے تھے، حدیث میں اس قسم کے لوگوں کا ذکر ہے جیسا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میں صبح جنابت کی حالت میں ہوتا ہوں، میں نے روزہ بھی رکھنا ہوتا ہے، کیا میں پہلے غسل کروں پھر روزہ رکھوں؟ آپ نے فرمایا: ''بعض اوقات میں خود بھی ایسی حالت سے دوچار ہوتا ہوں تو روزہ رکھنے کے بعد غسل کر کے نماز پڑھتا ہوں۔'' اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ ہماری طرح نہیں ہیں۔ آپ کے اللہ تعالیٰ نے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دیے ہیں۔ اس پر آپ ناراض ہوئے اور فرمایا: ''میں تمہاری نسبت اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔'' (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2593(1110))
(3) رخصت پر عمل کرنا تقویٰ کے خلاف نہیں بلکہ عین تقویٰ ہے۔ بہرحال علماء اور واعظین کو چاہیے کہ وہ وعظ و نصیحت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ مبارکہ کو ضرور پیش نظر رکھا کریں۔