صحیح بخاری
78. کتاب: اخلاق کے بیان میں
56. باب: اللہ تعالیٰ کا سورۃ نحل میں فرمانا’’انصاف اور احسان اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور تمہیں فحش منکر اور بغاوت سے روکتا ہے ۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے ، شاید کہ تم نصیحت حاصل کرو “
Sahi-Bukhari
78. Good Manners and Form (Al-Adab)
56. Chapter: 'Verily! Allah enjoins Al-'Adl and Al-Ihsan, and giving to kith and kin and forbids Al-Fahsha' and Al-Munkar, and Al-Baghy, He admonishes you, that you may take heed"
باب: اللہ تعالیٰ کا سورۃ نحل میں فرمانا’’انصاف اور احسان اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور تمہیں فحش منکر اور بغاوت سے روکتا ہے ۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے ، شاید کہ تم نصیحت حاصل کرو “
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: 'Verily! Allah enjoins Al-'Adl and Al-Ihsan, and giving to kith and kin and forbids Al-Fahsha' and Al-Munkar, and Al-Baghy, He admonishes you, that you may take heed")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ یونس میں فرمان ” بلا شبہ تمہاری سرکشی اور ظلم تمہارے ہی جانوں پر آئے گی “ اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ حج میں فرمان ” پھر اس پر ظلم کیا گیا تو اللہ اس کی یقینا مدد کرے گا ۔ “ اور اس باب میں فساد بھڑکانے کی برائی کا بھی بیان ہے مسلمان پر ہو یا کافر پر ۔تشریح : یہ مطلب حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جادو کی حدیث ذیل سے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کے جواب میں فرمایا تھا کہ اللہ نے اب مجھ کو تو تندرست کردیا۔ اب میں نے فساد بھڑکانا اور شور پھیلانا مناسب نہ سمجھا کیونکہ لبید بن اعصم نے جادو کیا تھا وہ کافر تھا میں اسے شہرت دوں تو خطرہ ہے کہ لوگ لبید کو پکڑیں سزا دیں خواہ مخواہ شورش پیدا ہو۔ اس سے آنحضرتﷺ کی امن پسندی ظاہر ہے۔
6117.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا نبی ﷺ اتنے اتنے دن اس حال میں رہے آپ کو خیال ہوتا کہ اپنی بیوی کے پاس گئے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہوتا تھا حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ آپ ﷺ نے ایک دن مجھ سے فرمایا: عائشہ! میں نے اللہ تعالٰی سے ایک معماملے میں سوال کیا تھا تو اس نے مجھے حقیقت حال سے آگاہ کر دیا ہے: میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے پاؤں کے پاس اور دوسرا میرے سر کے قریب بیٹھ گیا۔ جو میرے پاؤں کے پاس تھا اس نے سر کے قریب بیٹھنے والے سے کہا کہ اس آدمی کا حال کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ اس پر جادو کر دیا گیا ہے۔ اس نے پوچھا: کس نے کیا ہے؟ اس نے کہا : ”لبید بن اعصم نے کیا ہے۔ پوچھا: کس چیز میں کیا ہے؟ بتایا کہ کنگھی کے بالوں کو نر کھجور کے چھلکے میں ڈال کر ذروان نامی کنویں میں ایک پتھر کے نیچے رکھ کر جادو کیا ہے۔“ نبی ﷺ وہاں تشریف کے گئے آپ نے فرمایا: ”یہی کنواں مجھے دکھایا گیا تھا، گویا اس کی کھجوروں کے سر شیطانوں کے سر ہیں اور اس کا پانی مہندی کے رنگ جیسا ہے۔“ پھر اس جادو کو نبی ﷺ کے حکم سے برآمد کیا گیا۔ سیدہ عائشہ ؓ نے کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نےاسے نشر کیوں نہیں کیا؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اللہ نے مجھے شفا دے دی ہے اور میں اس بات کو پسند نہیں کرتا تاکہ لوگوں میں اس شر کی تشہیر کروں۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: لبید بن اعصم قبیلہ بنو زریق سے یہودیوں کا حلیف تھا۔
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادوگر لبید بن اعصم پر قدرت رکھنے کے باوجود اسے سزا نہیں دی بلکہ اس پر صبر کیا اور برائی کو دبا دیا۔ آپ نے فرمایا : ’’مجھے پسند نہیں کہ میں لوگوں شرکی تشہیر کروں۔‘‘ اس ارشاد کے دو معنی ہیں: ٭ مشتہر کرنے سے خطرہ تھا کہ مسلمان اسے پکڑ کر سزا دیں گے خواہ مخواہ ایک شور برپا ہوگا، آپ نے صبر سے کام لیتے ہوئے امن پسندی کا مظاہرہ کیا۔ ٭مشتہر کرنے سے یہ بھی اندیشہ تھا کہ منافقین جادو سیکھ لیں گے اور مسلمانوں کو اس سے نقصان پہنچائیں گے، لہٰذا آپ نے اس معاملے کو دبا دیا۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات کسی بڑے فساد اور شرکی روک تھام کے لیے مصلحت کو اختیار کیا جاتا ہے۔ مذکورہ آیات سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم سے منع کیا ہے اور وضاحت فرمائی کہ ظلم کا وبال ظالم کو پہنچتا ہے، پھر مظلوم کی مدد اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لے رکھی ہے، لہٰذا مظلوم کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسان کا شکر ادا کرتے ہوئے خود پر روا رکھے گئے ظلم وستم سے درگزر کرے اور ظالم کو معاف کر دے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادوگر کو معاف کر دیا تھا اور اسے کسی قسم کی سزا نہیں دی۔واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5840
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6063
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6063
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6063
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آیات میں سرکشی اور بغاوت کی حرمت کو بیان کیا ہے کہ مسلمان ہو یا کافر،اس کے خلاف شرارت کرنا، فساد برپا کرنا یا اس پر زیادتی کرنا کسی صورت میں جائز نہیں کیونکہ سرکشی کرنے والے کو دنیا میں اس کی سزا بھگتنا پڑتی ہے اور جس پر زیادتی کی گئی ہے،اللہ تعالیٰ نے اس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے،خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔درج ذیل حدیث سے بھی اسی امر کو ثابت کیا گیا ہے۔واللہ اعلم
اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ یونس میں فرمان ” بلا شبہ تمہاری سرکشی اور ظلم تمہارے ہی جانوں پر آئے گی “ اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ حج میں فرمان ” پھر اس پر ظلم کیا گیا تو اللہ اس کی یقینا مدد کرے گا ۔ “ اور اس باب میں فساد بھڑکانے کی برائی کا بھی بیان ہے مسلمان پر ہو یا کافر پر ۔تشریح : یہ مطلب حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جادو کی حدیث ذیل سے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کے جواب میں فرمایا تھا کہ اللہ نے اب مجھ کو تو تندرست کردیا۔ اب میں نے فساد بھڑکانا اور شور پھیلانا مناسب نہ سمجھا کیونکہ لبید بن اعصم نے جادو کیا تھا وہ کافر تھا میں اسے شہرت دوں تو خطرہ ہے کہ لوگ لبید کو پکڑیں سزا دیں خواہ مخواہ شورش پیدا ہو۔ اس سے آنحضرتﷺ کی امن پسندی ظاہر ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا نبی ﷺ اتنے اتنے دن اس حال میں رہے آپ کو خیال ہوتا کہ اپنی بیوی کے پاس گئے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہوتا تھا حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ آپ ﷺ نے ایک دن مجھ سے فرمایا: عائشہ! میں نے اللہ تعالٰی سے ایک معماملے میں سوال کیا تھا تو اس نے مجھے حقیقت حال سے آگاہ کر دیا ہے: میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے پاؤں کے پاس اور دوسرا میرے سر کے قریب بیٹھ گیا۔ جو میرے پاؤں کے پاس تھا اس نے سر کے قریب بیٹھنے والے سے کہا کہ اس آدمی کا حال کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ اس پر جادو کر دیا گیا ہے۔ اس نے پوچھا: کس نے کیا ہے؟ اس نے کہا : ”لبید بن اعصم نے کیا ہے۔ پوچھا: کس چیز میں کیا ہے؟ بتایا کہ کنگھی کے بالوں کو نر کھجور کے چھلکے میں ڈال کر ذروان نامی کنویں میں ایک پتھر کے نیچے رکھ کر جادو کیا ہے۔“ نبی ﷺ وہاں تشریف کے گئے آپ نے فرمایا: ”یہی کنواں مجھے دکھایا گیا تھا، گویا اس کی کھجوروں کے سر شیطانوں کے سر ہیں اور اس کا پانی مہندی کے رنگ جیسا ہے۔“ پھر اس جادو کو نبی ﷺ کے حکم سے برآمد کیا گیا۔ سیدہ عائشہ ؓ نے کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نےاسے نشر کیوں نہیں کیا؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اللہ نے مجھے شفا دے دی ہے اور میں اس بات کو پسند نہیں کرتا تاکہ لوگوں میں اس شر کی تشہیر کروں۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: لبید بن اعصم قبیلہ بنو زریق سے یہودیوں کا حلیف تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادوگر لبید بن اعصم پر قدرت رکھنے کے باوجود اسے سزا نہیں دی بلکہ اس پر صبر کیا اور برائی کو دبا دیا۔ آپ نے فرمایا : ’’مجھے پسند نہیں کہ میں لوگوں شرکی تشہیر کروں۔‘‘ اس ارشاد کے دو معنی ہیں: ٭ مشتہر کرنے سے خطرہ تھا کہ مسلمان اسے پکڑ کر سزا دیں گے خواہ مخواہ ایک شور برپا ہوگا، آپ نے صبر سے کام لیتے ہوئے امن پسندی کا مظاہرہ کیا۔ ٭مشتہر کرنے سے یہ بھی اندیشہ تھا کہ منافقین جادو سیکھ لیں گے اور مسلمانوں کو اس سے نقصان پہنچائیں گے، لہٰذا آپ نے اس معاملے کو دبا دیا۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات کسی بڑے فساد اور شرکی روک تھام کے لیے مصلحت کو اختیار کیا جاتا ہے۔ مذکورہ آیات سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم سے منع کیا ہے اور وضاحت فرمائی کہ ظلم کا وبال ظالم کو پہنچتا ہے، پھر مظلوم کی مدد اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لے رکھی ہے، لہٰذا مظلوم کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسان کا شکر ادا کرتے ہوئے خود پر روا رکھے گئے ظلم وستم سے درگزر کرے اور ظالم کو معاف کر دے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادوگر کو معاف کر دیا تھا اور اسے کسی قسم کی سزا نہیں دی۔واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
نیز ”تمہاری سر کشی(کا وبال) تم پر ہی ہے“ اور فرمان الہیٰ: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”پھر اس پر زیادتی کی جائے تو اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا“ کا بیان نیز مسلمان یا کافر کے خلاف فساد برپا نہ کرنے کا حکم
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ اتنے اتنے دنوں تک اس حال میں رہے کہ آپ کو خیال ہوتا تھا کہ جیسے آپ اپنی بیوی کے پاس جا رہے ہیں حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ پھر آنحضرت ﷺ نے مجھ سے ایک دن فرمایا، عائشہ ! میں نے اللہ تعالیٰ سے ایک معاملہ میں سوال کیا تھا اوراس نے وہ بات مجھے بتلا دی، دو فرشتے میرے پاس آئے، ایک میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا سرکے پاس بیٹھ گیا۔ اس نے اس سے کہا کہ جو میرے سر کے پاس تھا ان صاحب (آنحضرت ﷺ کا کیا حال ہے؟) دوسرے نے جواب دیا کہ ان پر جادو کر دیا گیا ہے۔ پوچھا، کس نے ان پر جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے، پوچھا، کس چیز میں کیا ہے، جواب دیا کہ نر کھجور کے خوشہ کے غلاف میں، اس کے اندر کنگھی ہے اور کتان کے تار ہیں۔ اور یہ ذروان کے کنویں میں ایک چٹان کے نیچے دبا دیا ہے۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ تشریف لے گئے اور فرمایا کہ یہی وہ کنواں ہے جو مجھے خواب میں دکھلایا گیا تھا، اس کے باغ کے درختوں کے پتے سانپوں کے پھن جیسے ڈراؤنے معلوم ہوتے ہیں اور اس کا پانی مہندی کے نچوڑ ے ہوئے پانی کی طرح سرخ تھا۔ پھر آنحضرت ﷺ کے حکم سے وہ جادو نکالا گیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! پھر کیوں نہیں، ان کی مراد یہ تھی کہ آنحضرت ﷺ نے اس واقعہ کو شہرت کیوں نہ دی۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے شفا دے دی ہے اورمیں ان لوگوں میں خواہ مخواہ برائی کے پھیلانے کو پسند نہیں کرتا۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ لبید بن اعصم یہود کے حلیف بنی زریق سے تعلق رکھتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(اصل میں کتان السی کو کہتے ہیں اس کے درخت کا پوست لے کر اس میں ریشم کی طرح کا تار نکالتے ہیں یہاں وہی تار مراد ہیں) باب کے آخری جملہ کا مقصد اسی سے نکلتا ہے کہ آپ نے ایک کافر کے اوپر حقیقت کے باوجود برائی کو نہیں لادا بلکہ صبر وشکر سے کام لیا اور اس برائی کو دبا دیا۔ شورش کو بند کردیا۔ (صلی اللہ علیہ وسلم)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : The Prophet (ﷺ) continued for such-and-such period imagining that he has slept (had sexual relations) with his wives, and in fact he did not. One day he said, to me, "O 'Aisha! Allah has instructed me regarding a matter about which I had asked Him. There came to me two men, one of them sat near my feet and the other near my head. The one near my feet, asked the one near my head (pointing at me), 'What is wrong with this man? The latter replied, 'He is under the effect of magic.' The first one asked, 'Who had worked magic on him?' The other replied, 'Lubaid bin Asam.' The first one asked, 'What material (did he use)?' The other replied, 'The skin of the pollen of a male date tree with a comb and the hair stuck to it, kept under a stone in the well of Dharwan."' Then the Prophet (ﷺ) went to that well and said, "This is the same well which was shown to me in the dream. The tops of its date-palm trees look like the heads of the devils, and its water looks like the Henna infusion." Then the Prophet (ﷺ) ordered that those things be taken out. I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Won't you disclose (the magic object)?" The Prophet (ﷺ) said, "Allah has cured me and I hate to circulate the evil among the people." 'Aisha (RA) added, "(The magician) Lubaid bin Asam was a man from Bani Zuraiq, an ally of the Jews."