تشریح:
(1) جو شخص حیا کی صفت سے متصف ہو گا اور وہ لوگوں سے حیا کرے گا کہ اگر لوگ اسے فسق و فجور میں مبتلا دیکھیں گے تو کیا کہیں گے ایسا انسان اللہ تعالیٰ سے بہت حیا کرے گا۔ جو انسان اللہ تعالیٰ سے حیا کرتا ہو تو حیا اسے حقوق و واجبات کے ضائع کرنے اور گناہوں کے ارتکاب سے روکے گی کیونکہ حیا فواحش و منکرات سے منع کرتی ہے اور نیکی پر ابھارتی ہے، جیسے ایمان، اہل ایمان کو فسق و فجور سے منع کرتا ہے اور گناہوں سے دور رکھتا ہے، لہذا ان امور میں حیا، ایمان کے مساوی ہے اگرچہ حیا ایک طبعی چیز ہے اور ایمان، مومن کا کسبی فعل ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’حیا ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث:24)
(2) حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ، اس لیے ناراض ہوئے کہ حدیث سننے کے بعد دوسروں کا کلام سننے کی کوئی ضرورت نہیں جبکہ بشیر بن کعب نے حدیث سننے کے بعد حکماء کی حکمت بیان کرنا شروع کر دی۔