تشریح:
(1) حیا کی دو قسمیں ہیں: ایک طبعی اور دوسری کسبی، طبعی حیا انسان کی فطرت اور جبلت میں ہوتی ہے۔ کچھ لوگ طبعاً شرمیلے ہوتے ہیں۔ اور حیا کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ انسان محنت کر کے اسے اپنے اندر پیار کرتا ہے۔ بعض اوقات طبعی حیا اکتسابی حیا کے لیے معاون بن جاتی ہے اور بعض اوقات اکتسابی حیا انسان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے اس سے مراد اکتسابی حیا ہے۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حیا کی دونوں قسمیں بدرجۂ اتم موجود تھیں۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جس حیا کا ذکر ہے وہ طبعی اور فطری ہے اور اکتسابی حیا بھی بہت اعلیٰ درجے کی تھی۔
(3) شاید امام بخاری رحمہ اللہ نے حیا کے باب میں اس آخری حدیث کو اس لیے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حیا کی دونوں قسموں کو ثابت کیا جائے کہ وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں بدرجۂ اتم موجود تھیں۔ (فتح الباري:642/10)