Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Jealousy and mutual estrangement are forbidden)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اوراللہ تعالیٰ کا سورۃ فلق میں فرمان ” اور حسد کرنے والے کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں یا اللہ جب وہ حسد کرے ۔تحاسد اور تدابر دونوں جانب سے ہو یا ایک کی طرف سے ہر حال برا ہے آیت کا مفہوم یہی ہے اور اس لئے یہاں امام عالی مقام نے ایک آیت کو نقل کیا ہے ۔ ( فتح)
6119.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ باہم حسد کرو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو۔ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو نیز کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے۔“
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث سے باہمی حسد اور آپس میں قطع تعلقی کو بیان کیا ہے کہ ایسا کرنا حرام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حسد ایک انتہائی بری خصلت ہے جو اللہ تعالیٰ کے فیصلوں اور اس پر راضی نہ رہنے کی وجہ سے آتی ہے کیونکہ کسی کے پاس اللہ کی نعمت دیکھ کر جلنے کا نام حسد ہے۔ (2) حسد کے بعد انسان میں بغاوت پیدا ہوتی ہے اور یہ دونوں چیزیں افراد، خاندانوں اور قوموں کی تباہی کا باعث ہیں۔اسی طرح ایک دوسرے سے روگردانی کرنا اور پیٹھ پھیرنا بھی شریعت کو پسند نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’جس نے ایک سال تک اپنے بھائی سے روابط توڑے رکھے تو وہ ایسے ہے جیسے اس کا خون بہا دیا ہو۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:4915) اگر کہیں شکر رنجی ہو جائے تو تعلقات کو بالکل ہی منقطع کر لینا جائز نہیں، ہاں اگر مزید تعلقات بڑھانا خلاف مصلحت ہو تو سلام دعا سے بخل نہیں کرنا چاہیے۔ (3) یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ تین دن سے زیادہ قطع تعلقی اس صورت میں ناجائز ہے جب کسی دنیاوی غرض سے یا اپنی ذات کے لیے ہو، اگر اللہ تعالیٰ کے لیے ہے تو ایسا کرنا اللہ کو محبوب ہے جیسا کہ امام ابو داود رحمہ اللہ نے ایک حدیث کے تحت فرمایا ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے چالیس دن تک میل جول چھوڑ دیا تھا اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مرتے دم تک اپنے بیٹے سے بائیکاٹ کیے رکھا تھا۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، تحت حدیث4916) (4) بہرحال سلام کرنے اور اس کا جواب دینے سے بائیکاٹ کا گناہ ختم ہو جاتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ سلام کہنے کے بعد اگر وہ جواب دے دے تو اجرو ثواب میں دونوں شریک ہو گئے اور اگر وہ سلام کا جواب نہ دے تو سلام کرنے والا اس بائیکاٹ کے گناہ سے نکل جاتا ہے۔ (الأدب المفرد، حدیث:414)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5842
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6065
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6065
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6065
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
تحاسد کے معنی ہیں: ایک دوسرے سے حسد کرنا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان کے بعد آیت کریمہ لاکر یہ اشارہ کیا ہے کہ حسد دونوں کی طرف سے ہویا ایک کی طرف سے ہر حال میں قابل مذمت ہے۔ واللہ اعلم
اوراللہ تعالیٰ کا سورۃ فلق میں فرمان ” اور حسد کرنے والے کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں یا اللہ جب وہ حسد کرے ۔تحاسد اور تدابر دونوں جانب سے ہو یا ایک کی طرف سے ہر حال برا ہے آیت کا مفہوم یہی ہے اور اس لئے یہاں امام عالی مقام نے ایک آیت کو نقل کیا ہے ۔ ( فتح)
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ باہم حسد کرو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو۔ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو نیز کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث سے باہمی حسد اور آپس میں قطع تعلقی کو بیان کیا ہے کہ ایسا کرنا حرام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حسد ایک انتہائی بری خصلت ہے جو اللہ تعالیٰ کے فیصلوں اور اس پر راضی نہ رہنے کی وجہ سے آتی ہے کیونکہ کسی کے پاس اللہ کی نعمت دیکھ کر جلنے کا نام حسد ہے۔ (2) حسد کے بعد انسان میں بغاوت پیدا ہوتی ہے اور یہ دونوں چیزیں افراد، خاندانوں اور قوموں کی تباہی کا باعث ہیں۔اسی طرح ایک دوسرے سے روگردانی کرنا اور پیٹھ پھیرنا بھی شریعت کو پسند نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’جس نے ایک سال تک اپنے بھائی سے روابط توڑے رکھے تو وہ ایسے ہے جیسے اس کا خون بہا دیا ہو۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:4915) اگر کہیں شکر رنجی ہو جائے تو تعلقات کو بالکل ہی منقطع کر لینا جائز نہیں، ہاں اگر مزید تعلقات بڑھانا خلاف مصلحت ہو تو سلام دعا سے بخل نہیں کرنا چاہیے۔ (3) یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ تین دن سے زیادہ قطع تعلقی اس صورت میں ناجائز ہے جب کسی دنیاوی غرض سے یا اپنی ذات کے لیے ہو، اگر اللہ تعالیٰ کے لیے ہے تو ایسا کرنا اللہ کو محبوب ہے جیسا کہ امام ابو داود رحمہ اللہ نے ایک حدیث کے تحت فرمایا ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے چالیس دن تک میل جول چھوڑ دیا تھا اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مرتے دم تک اپنے بیٹے سے بائیکاٹ کیے رکھا تھا۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، تحت حدیث4916) (4) بہرحال سلام کرنے اور اس کا جواب دینے سے بائیکاٹ کا گناہ ختم ہو جاتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ سلام کہنے کے بعد اگر وہ جواب دے دے تو اجرو ثواب میں دونوں شریک ہو گئے اور اگر وہ سلام کا جواب نہ دے تو سلام کرنے والا اس بائیکاٹ کے گناہ سے نکل جاتا ہے۔ (الأدب المفرد، حدیث:414)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”اور حسد کرنے والے کی برائی سے پناہ چاہتا ہوں جب وہ حسد کرے۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ مجھ سے حضرت انس مالک ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آپس میں بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو، پیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہ کرو، بلکہ اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ ایک بھائی کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ سلام کلام چھوڑ کر رہے۔
حدیث حاشیہ:
اللہ کے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مقدس وعظ ہے، جو اس قابل ہے کہ ہر وقت یاد رکھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے اس صورت میں یقینا امت کا بیڑا پار ہو سکے گا۔ اللہ سب کو ایسی ہمت عطا کرے آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Do not hate one another, and do not be jealous of one another, and do not desert each other, and O, Allah's worshipers! Be brothers. Lo! It is not permissible for any Muslim to desert (not talk to) his brother (Muslim) for more than three days."