باب: دوسرے ملک کے وفود ملاقات کو آئیں تو ان کے لئے اپنے آپ کوآراستہ کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Whoever spruced himself up for the delegates)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6135.
حضرت یحیٰی بن ابی اسحاق سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھ سے حضرت سالم بن عبداللہ نے پوچھا کہ استبرق کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا: دیبا سے بنا ہوا موٹا اور خوبصورت کپڑا۔ پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے سنا انہوں نے کہا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ایک شخص کو استبرق کا جوڑا پہنے ہوئے دیکھا تو نبی ﷺ کی خدمت میں اسے لے کر حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اسے خرید لیں اور جب لوگوں کے وفد آپ کے پاس آئیں تو اسے زیب تن کر لیا کریں۔ آپ نے فرمایا: ”اسے تو صرف وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔“ اس کے بعد کچھ مدت گزری تو نبی ﷺ نے خود انہیں ایک ریشمی جوڑا بھیجا چنانچہ وہ اسے لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے یہ جوڑا میرے لیے بھیجا ہے حالانکہ چنانچہ آپ اسے کے متعلق جو ارشاد فرمانا تھا وہ فرما چکے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے یہ تمہارے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ تم اس کے ذریعے سے مال حاصل کرو۔“ حضرت ابن عمر ؓ اس حدیث کی وجہ سے کپڑوں پر بیل بوٹے اور نقش ونگار پسند کرتے تھے۔
تشریح:
امام بخاری رحمہ اللہ کے استدلال کی بنیاد وہ الفاظ ہیں جو دوسری روایات میں آئے ہیں، کہ آپ اس ریشمی جوڑے کو خرید لیں تاکہ عید اور وفود کے آمد کے موقع پر خود اس سے آراستہ کر لیا کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کا انکار نہیں کیا، بلکہ یہ فرمایا: اس قسم کےریشمی لباس تو وہ پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا، مطلق طور پر وفد کی آمد پر زیبائش کا انکار نہیں کیا۔ علماء نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ وفود کی آمد پر نفیس تر لباس زیب تن کرنا چاہیے، اس سے انسان کا وقار واحترام دوبالا ہو جاتا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5856
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6081
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6081
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6081
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
حضرت یحیٰی بن ابی اسحاق سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھ سے حضرت سالم بن عبداللہ نے پوچھا کہ استبرق کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا: دیبا سے بنا ہوا موٹا اور خوبصورت کپڑا۔ پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے سنا انہوں نے کہا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ایک شخص کو استبرق کا جوڑا پہنے ہوئے دیکھا تو نبی ﷺ کی خدمت میں اسے لے کر حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اسے خرید لیں اور جب لوگوں کے وفد آپ کے پاس آئیں تو اسے زیب تن کر لیا کریں۔ آپ نے فرمایا: ”اسے تو صرف وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔“ اس کے بعد کچھ مدت گزری تو نبی ﷺ نے خود انہیں ایک ریشمی جوڑا بھیجا چنانچہ وہ اسے لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے یہ جوڑا میرے لیے بھیجا ہے حالانکہ چنانچہ آپ اسے کے متعلق جو ارشاد فرمانا تھا وہ فرما چکے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے یہ تمہارے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ تم اس کے ذریعے سے مال حاصل کرو۔“ حضرت ابن عمر ؓ اس حدیث کی وجہ سے کپڑوں پر بیل بوٹے اور نقش ونگار پسند کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کے استدلال کی بنیاد وہ الفاظ ہیں جو دوسری روایات میں آئے ہیں، کہ آپ اس ریشمی جوڑے کو خرید لیں تاکہ عید اور وفود کے آمد کے موقع پر خود اس سے آراستہ کر لیا کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کا انکار نہیں کیا، بلکہ یہ فرمایا: اس قسم کےریشمی لباس تو وہ پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا، مطلق طور پر وفد کی آمد پر زیبائش کا انکار نہیں کیا۔ علماء نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ وفود کی آمد پر نفیس تر لباس زیب تن کرنا چاہیے، اس سے انسان کا وقار واحترام دوبالا ہو جاتا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالصمد بن عبدالوارث نے، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے، کہا کہ مجھ سے سالم بن عبداللہ نے پوچھا کہ استبرق کیا چیز ہے؟ میں نے کہا کہ دیبا سے بنا ہوا دبیز اور کھردرا کپڑا پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ عمرؓ نے ایک شخص کو استبرق کا جوڑا پہنے ہوئے دیکھا تو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اسے لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اسے آپ خرید لیں اور وفد جب آپ سے ملاقات کے لئے آئیں تو ان کی ملاقات کے وقت اسے پہن لیا کریں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ریشم تو وہی پہن سکتا ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہ ہو خیر اس بات پر ایک مدت گزر گئی پھر ایسا ہوا کہ ایک دن آنحضرت ﷺ نے خود انہیں ایک جوڑا بھیجا تو وہ اسے لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا آنحضرت ﷺ نے یہ جوڑا میرے لئے بھیجا ہے، حالانکہ اس کے بارے میں آپ اس سے پہلے ایسا ارشاد فرما چکے ہیں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ میں نے تمہارے پاس اس لئے بھیجا ہے تاکہ تم اس کے ذریعہ (بیچ کر) مال حاصل کرو۔ چنانچہ ابن عمر ؓ اسی حدیث کی وجہ سے کپڑے میں (ریشم کے) بیل بوٹوں کو بھی مکروہ جانتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : 'Umar saw a silken cloak over a man (for sale) so he took it to the Prophet (ﷺ) and said, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Buy this and wear it when the delegate come to you.' He said, 'The silk is worn by one who will have no share (in the Here-after).' Some time passed after this event, and then the Prophet (ﷺ) sent a (similar) cloak to him. 'Umar brought that cloak back to the Prophet (ﷺ) and said, 'You have sent this to me, and you said about a similar one what you said?' The Prophet (ﷺ) said, 'I have sent it to you so that you may get money by selling it.' Because of this, Ibn 'Umar (RA) used to hate the silken markings on the garments.