تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد میں اذان دینے کےلیے متعدد مؤذن رکھے جا سکتے ہیں، تاہم وقت کےلیے اذان صرف ایک مؤذن کہے گا کیونکہ قرعہ اندازی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب مؤذن متعدد ہوں۔ بعض حضرات نے حدیث میں وارد لفظ "استهام" سے تیر اندازی مراد لی ہے، لیکن امام بخاری کے نزدیک اس کے معنی قرعہ اندازی ہیں۔ انھوں نے حضرت سعد ؓ کا قرعہ سے متعلق قصہ بھی اس معنی کی تائید کے لیے پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ صحیح مسلم میں قرعہ کے صریح الفاظ بھی اس معنی کے مؤید ہیں۔ (فتح الباري:128/2) (2) قرعہ اندازی کے ذریعے سے کوئی شرعی حکم نہیں ثابت کیا جاسکتا بلکہ اسے مساویانہ حقوق رکھنے والوں کے درمیان نزاع کے موقع پر فیصلہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، یعنی حل مشکلات، قطع نزاع، دفع ظنون اور تالیف قلبی کے لیے قرعہ ڈالا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں متعدد عنوان قائم کیے ہیں، مثلا:٭هل يقرع في القسمة (كتاب الشركة: 6) ٭القرعة في المشكلات (كتاب الشهادات: 30) ٭القرعة بين النساء (كتاب النكاح: 98) اس مقام پر امام بخاری ؒ کا مقصود اذان کی فضیلت بیان کرنا اور یہ ثابت کرنا ہے کہ ایک مسجد میں نماز کے لیے صرف ایک ہی اذان دینی چاہیے، کیونکہ اگر متعدد اذانیں جائز ہوتیں تو قرعہ اندازی کی نوبت کیوں پیش آتی۔