تشریح:
(1) اس حدیث میں ''زَعَمَ ابن أُمي'' کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ لفظ ''زَعَمُوا'' استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر اس کا استعمال ناجائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اصلاح فرما دیتے۔
(2) لفظ زَعَمَ قول کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے محمد! ہمارے پاس آپ کا قاصد آیا اور اس نے کہا کہ آپ خود کو اللہ کے رسول کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اس نے سچ کہا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:102(12)) الفاظ یہ ہیں: (أتانا رسولك فزعم لنا أنك تزعم أن الله أرسلك؟ قال: صدق) بہرحال لفظ زعم کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ أعلم