باب: اگرکسی نے کوئی وجہ معقول رکھ کر کسی کو کافر کہا یا نادانستہ تو وہ کافر ہو گا
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Whoever does not consider as Kafir the person who says that...)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عمر ؓ نے حاطب بن ابی بلتعہ کے متعلق کہا کہ وہ منافق ہے اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا عمر ! تو کیا جانے اللہ تعالیٰ نے تو بدر والوں کو عرش پر سے دیکھا اور فرمادیا کہ میں نے تم کو بخش دیا ۔حاطب کا مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ پوشیدہ طور پر مکہ والوں کو جنگ سے آگاہ کردیا تھا اس پر یہ اشارہ ہے۔تشریح : جنگ بدر ماہ رمضان2ھ میں مقام بدر پر برپا ہوئی ، ابو جہل ایک ہزار کی فوج لے کر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوا جب مدینہ کے قریب آگیا تو مسلمانوں کو ان کے ناپاک ارادے کی خبر ہوئی چنانچہ رسول اللہﷺصرف 313 فدائیوں کے ساتھ مدینہ منورہ سے باہر نکلے ۔ 313 میں صرف 13 تلواریں تھیں اور راشن وسواریوں کا کوئی انتظام نہ تھا ادھر مکہ والے ہزار مسلح فوج کے ساتھ ہر طرح سے لیس ہو کر آئے تھے۔ اس جنگ میں22 مسلمان شہید ہوئے کفار کے 70 آدمی قتل ہوئے اور70 ہی قید ہوئے۔ ابو جہل جیسا ظالم ا س جنگ میں دو نو عمر مسلمان بچوں کے ہاتھوں سے مارا گیا، بدر مکہ سے سات منزل دور اور مدینہ سے تین منزل ہے، مفصل حالات کتب تواریخ وتفاسیر میں ملاحظہ ہوں بخاری میں بھی کتاب الغزوات میں تفصیلات دیکھی جا سکتی ہیں
6162.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو ایک قافلے میں پایا جبکہ وہ اپنے باپ کی قسم اٹھا رہے تھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے انہیں آواز دے کر فرمایا: ”خبردار! اللہ تعالٰی نے تمہیں اپنے آباؤ اجداد کی قسم کھانے سے منع کیا ہے لہذا اگر کسی نے قسم کھانی ہو ہے وہ صرف کی قسم کھائے یا پھر خاموش رہے۔ “
تشریح:
(1) غیراللہ کی قسم اٹھانا کفر یا شرک ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ''جس نے اللہ کے سوا کسی اور چیز کی قسم اٹھائی اس نے کفر یا شرک کا ارتکاب کیا۔''(مسند احمد:2/125) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوران سفر میں اپنے باپ کی قسم اٹھائی لیکن ان کا یہ اقدام لاعلمی کی وجہ سے تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی لاعلمی اور جہالت کے پیش نظر انہیں کافر یا مشرک قرار نہیں دیا اور نہ انہیں تجدید ایمان ہی کے متعلق کہا بلکہ ان کی لاعلمی دور کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے غیراللہ کی قسم اٹھانے سے منع فرمایا ہے۔ (2) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص معقول تاویل یا جہالت کی وجہ سے کافرانہ کام کرتا ہے یا کفریہ بات کہتا ہے تو اسے معذور خیال کرتے ہوئے کافر نہیں کہا جائے گا۔ اس سلسلے میں ہم نے ایک مضمون ''امام بخاری اور فتنۂ تکفیر'' کے عنوان سے لکھا ہے جو ہماری تالیف ''مسئلۂ ایمان و کفر'' کے آخر میں مطبوع ہے، قارئین کرام اس کا ضرور مطالعہ کریں۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5882
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6108
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6108
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6108
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے پہلے یہ وضاحت کی تھی کہ اگر کوئی تاویل کے بغیر کسی کو کافر کہتا ہے تو اگر وہ درحقیقت کافر نہیں تو کہنے والا کافر ہو جاتا ہے۔ اب اس مسئلے کا دوسرا پہلو بیان کیا ہے کہ اگر اس میں کوئی مانع حائل ہو تو کافر نہیں ہو گا۔ بعض دفعہ تکفیر کے اسباب و شرائط کے باوجود کسی متعین شخص کو کافر قرار دینے میں کوئی رکاوٹ حائل ہو جاتی ہے، اس رکاوٹ کو مانع کہا جاتا ہے۔ وہ موانع اور رکاوٹیں حسب ذیل ہیں: ٭ اکراہ ٭ تقیہ ٭ معقول تاویل ٭ جہالت ٭ شدت جذبات ٭ حالت نشہ ٭ مرفوع القلم ٭ نقل و حکایت۔ ان تمام موانع کی تفصیل ہم نے اپنی تالیف مسئلۂ ایمان و کفر میں بیان کی ہے، اس کا مطالعہ مفید رہے گا۔ ان شاءاللہ۔ البتہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دو موانع ذکر کیے ہیں: ایک تاویل اور دوسرا جہالت۔ ان کی ہم یہاں تفصیل بیان کرتے ہیں: ٭ معقول تاویل: کسی کفر یہ کام یا بات کا مرتکب شخص اپنے پاس اگر کوئی معقول تاویل رکھتا ہے تو اسے معذور تصور کیا جائے گا لیکن تاویل کے لیے ضروری ہے کہ الفاظ میں عربی قاعدے کے مطابق اس کی گنجائش ہو اور علمی طور پر اس عمل یا بات کی توجیہ ممکن ہو۔ اگر کسی کو اس کی تاویل سے اتفاق نہ ہو تو اسے کافر کہنے کے بجائے اس تاویل کا بودا پن واضح کیا جائے۔ واضح رہے کہ ہر تاویل تکفیر کے لیے مانع نہیں بن سکتی بلکہ وہ تاویل، تکفیر کے لیے رکاوٹ کا باعث ہو گی جس کی بنیاد کسی شرعی دلیل میں غوروفکر پر ہو لیکن اس شرعی دلیل کو سمجھنے میں اسے غلطی لگ جائے۔ اس قسم کی تاویل کرنے والا معذور ہو گا اور اسے کافر نہیں کہا جائے گا، ہاں اگر تاویل کی بنیاد کوئی شرعی دلیل نہیں بلکہ محض عقل و قیاس اور خواہشات نفس ہیں تو اس قسم کی تاویل کرنے والا معذور نہیں ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے لعین ابلیس سے سوال کیا کہ تو نے آدم کو سجدہ کیوں نہیں کیا؟ تو اس نے جواب دیا: ''میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے بنایا ہے۔'' (الاعراف7: 12) اللہ تعالیٰ نے ابلیس کی اس تاویل کو کوئی اہمیت ہی نہ دی بلکہ اس کا بودا پن واضح کر کے اسے ہمیشہ کے لیے اپنی رحمت سے دور کر دیا۔ اسی طرح باطنی حضرات کی تاویلات ہیں جن کی بنیاد پر انہوں نے شرعی واجبات سے راہ فرار اختیار کی ہے۔ قادیانی حضرات نے تاویلات کا سہارا لے کر مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی تسلیم کیا ہے لیکن انہیں کسی شرعی دلیل کو سمجھنے میں غلطی نہیں لگی کہ انہیں معذور خیال کرتے ہوئے کافر قرار نہ دیا جائے بلکہ یہ مرتدین کا ٹولہ ہے اور ان کی تاویلات محض خواہشات نفس کا پلندہ ہیں، پھر علمائے امت نے ان تاویلات کا بودا پن ان پر واضح کر دیا ہے اور حکومت پاکستان نے بھی قانونی طور پر انہیں خارج از اسلام قرار دیا ہے۔ ٭ جہالت اور لاعلمی: اگر کسی انسان سے جہالت و لاعلمی کی بنا پر کوئی کفریہ کام یا بات سر زد ہو جائے تو اسے بھی معذور تصور کیا جائے گا اور اسے کافر قرار دینے کے بجائے اس کی جہالت دور کی جائے گی، لیکن اس جہالت کی کچھ حدود و قیود ہیں۔ مطلق جہل کو مانع قرار نہیں دیا جا سکتا، بلکہ اس سے مراد وہ جہالت و لاعلمی ہے جسے کسی وجہ سے انسان دور نہ کر سکتا ہو، خواہ وہ خود مجبور و لاچار ہو یا مصادر علم تک اس کی رسائی ناممکن ہو۔ لیکن اگر کسی انسان میں جہالت دور کرنے کی صلاحیت ہے اور اسے اس قدر ذرائع اور وسائل میسر ہیں کہ وہ اپنی جہالت دور کر سکتا ہے اس کے باوجود وہ کوتاہی کا مرتکب ہے تو ایسے انسان کی جہالت کو کفر سے مانع قرار نہیں دیا جا سکتا، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ہم اس وقت تک عذاب نہیں دیا کرتے جب تک اپنا رسول نہ بھیج لیں۔'' (بنی اسرائیل17: 15) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت کی ہے کہ جب تک ہم انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے لوگوں کی جہالت کو دور نہیں کرتے انہیں عذاب سے دوچار کرنا ہمارا دستور نہیں ہے۔ اس آیت کے تحت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بندوں پر اتمام حجت کے لیے دو چیزوں کا ہونا لازمی ہے: ٭ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ تعلیمات کو حاصل کرنے کی ہمت و استعداد رکھتے ہوں۔ ٭ ان پر عمل کرنے کی قدرت ہو، یعنی وہ عاقل، بالغ ہوں۔ (فتاوٰی ابن تیمیۃ:12/478) اس سے معلوم ہوا کہ جہالت و لاعلمی کو اتمام حجت کے سلسلے میں ایک رکاوٹ شمار کیا گیا ہے۔اس عنوان کو ثابت کرنے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ پیش کیا ہے جسے آپ نے متصل سند کے ساتھ دوسرے مقام پر تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری، المغازی، حدیث:3983) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو منافق قرار دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کا دفاع تو کیا لیکن ردعمل کے طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کافر یا منافق قرار نہیں دیا کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک معقول تاویل کی بنا پر منافق کہا تھا کہ انہوں نے اہل مکہ کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں اسلام اور اہل اسلام کے متعلق ایک اہم راز کی اطلاع دی تھی۔ ایسا کرنا کفار سے دوستی رکھنے کے مترادف ہے۔
اور حضرت عمر ؓ نے حاطب بن ابی بلتعہ کے متعلق کہا کہ وہ منافق ہے اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا عمر ! تو کیا جانے اللہ تعالیٰ نے تو بدر والوں کو عرش پر سے دیکھا اور فرمادیا کہ میں نے تم کو بخش دیا ۔حاطب کا مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ پوشیدہ طور پر مکہ والوں کو جنگ سے آگاہ کردیا تھا اس پر یہ اشارہ ہے۔تشریح : جنگ بدر ماہ رمضان2ھ میں مقام بدر پر برپا ہوئی ، ابو جہل ایک ہزار کی فوج لے کر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوا جب مدینہ کے قریب آگیا تو مسلمانوں کو ان کے ناپاک ارادے کی خبر ہوئی چنانچہ رسول اللہﷺصرف 313 فدائیوں کے ساتھ مدینہ منورہ سے باہر نکلے ۔ 313 میں صرف 13 تلواریں تھیں اور راشن وسواریوں کا کوئی انتظام نہ تھا ادھر مکہ والے ہزار مسلح فوج کے ساتھ ہر طرح سے لیس ہو کر آئے تھے۔ اس جنگ میں22 مسلمان شہید ہوئے کفار کے 70 آدمی قتل ہوئے اور70 ہی قید ہوئے۔ ابو جہل جیسا ظالم ا س جنگ میں دو نو عمر مسلمان بچوں کے ہاتھوں سے مارا گیا، بدر مکہ سے سات منزل دور اور مدینہ سے تین منزل ہے، مفصل حالات کتب تواریخ وتفاسیر میں ملاحظہ ہوں بخاری میں بھی کتاب الغزوات میں تفصیلات دیکھی جا سکتی ہیں
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو ایک قافلے میں پایا جبکہ وہ اپنے باپ کی قسم اٹھا رہے تھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے انہیں آواز دے کر فرمایا: ”خبردار! اللہ تعالٰی نے تمہیں اپنے آباؤ اجداد کی قسم کھانے سے منع کیا ہے لہذا اگر کسی نے قسم کھانی ہو ہے وہ صرف کی قسم کھائے یا پھر خاموش رہے۔ “
حدیث حاشیہ:
(1) غیراللہ کی قسم اٹھانا کفر یا شرک ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ''جس نے اللہ کے سوا کسی اور چیز کی قسم اٹھائی اس نے کفر یا شرک کا ارتکاب کیا۔''(مسند احمد:2/125) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوران سفر میں اپنے باپ کی قسم اٹھائی لیکن ان کا یہ اقدام لاعلمی کی وجہ سے تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی لاعلمی اور جہالت کے پیش نظر انہیں کافر یا مشرک قرار نہیں دیا اور نہ انہیں تجدید ایمان ہی کے متعلق کہا بلکہ ان کی لاعلمی دور کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے غیراللہ کی قسم اٹھانے سے منع فرمایا ہے۔ (2) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص معقول تاویل یا جہالت کی وجہ سے کافرانہ کام کرتا ہے یا کفریہ بات کہتا ہے تو اسے معذور خیال کرتے ہوئے کافر نہیں کہا جائے گا۔ اس سلسلے میں ہم نے ایک مضمون ''امام بخاری اور فتنۂ تکفیر'' کے عنوان سے لکھا ہے جو ہماری تالیف ''مسئلۂ ایمان و کفر'' کے آخر میں مطبوع ہے، قارئین کرام اس کا ضرور مطالعہ کریں۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حضرت عمر بن خطاب ؓ نے حاطب بن ابی بلتعہ ؓکے متعلق کہا: وہ منافق ہے تو نبیﷺنے فرمایا: ”تمہیں کیا معلوم اللہ تعالٰی نے تو اہل بدر کو عرش پر سے دیکھا اور فرمایا: میں نے تمہیں بخش دیا ہے؟“
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعیدنے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، ان سے نافع نے ، ان سے ابن عمر ؓ نے کہ وہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس پہنچے جو چند سواروں کے ساتھ تھے ، اس وقت حضرت عمر ؓ اپنے والد کی قسم کھا رہے تھے ۔ اس پر رسول کریم ﷺ نے انہیں پکار کر کہا ، آگاہ ہو ، یقینا اللہ پاک تمہیں منع کرتا ہے کہ تم اپنے باپ دادوں کی قسم کھاؤ ، پس اگر کسی کو قسم ہی کھا نی ہے تو اللہ کی قسم کھائے ، ورنہ چپ رہے ۔
حدیث حاشیہ:
دوسری حدیث میں آیا ہے کہ غیر اللہ کی قسم کھانا منع ہے اگر کسی کی زبان سے غیرا للہ کی قسم نکل گئی تو اسے کلمہ توحید پڑھ کر پھر ایمان کی تجدید کرنا چاہیئے اگر کوئی عمداً کسی پیر یا بت کی عظمت مثل عظمت الہٰی کے جان کر ان کے نام کی قسم کھائے گا تو وہ یقینا مشرک ہوجائے گا ایک حدیث میں جو افلح وابیہ ان صدق کے لفظ آئے ہیں۔ یہ حدیث پہلے کی ہے ۔ لہٰذا یہاں قسم کا جواز منسوخ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) :
that he found 'Umar bin Al-Khattab (RA) in a group of people and he was swearing by his father. So Allah's Apostle (ﷺ) called them, saying, "Verily! Allah forbids you to swear by your fathers. If one has to take an oath, he should swear by Allah or otherwise keep quiet."