تشریح:
(1) علامہ نوی ؒ نے امام ابو حنیفہ ؒ کے متعلق لکھا ہے کہ ان کے نزدیک نابینے کی اذان صحیح نہیں۔ اس کے متعلق حافظ ابن حجر العسقلانی ؒ لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ؒ کی طرف اس کراہت کا انتساب صحیح نہیں، البتہ احناف کی فقہی کتاب"محیط" میں نابینے کی اذان کے متعلق کراہت کا ذکر ہے۔ (فتح الباري:131/2) علامہ عینی ؒ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے، لیکن کراہت کا اصل سبب عدم مشاہدہ کو قرار دیا ہے، لہٰذا اگر کوئی دیکھنے والا نابینے کو صحیح وقت کی خبر دے تو کراہت نہیں ہوگی۔ (عمدة القاري:180/4) مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ وہ نابینے کی اذان کو مکروہ خیال کرتے تھے۔ یہ کراہت بھی اسی بنیاد پر ہے جب اسے نہ خود تجربہ ہو اور نہ اسے صحیح وقت بتانے والا ہی ہو۔ امام بخاری ؒ نے قائم کردہ عنوان میں اسی شرط کا ذکر فرمایا ہے۔ واضح رہے کہ حضرت ابن ام مکتوم ؓ صبح کی اذان کے لیے طلوع فجر کا صحیح صحیح اندازہ لگا لیتے تھے، اس سلسلے میں ان سے کبھی خطا سرزد نہیں ہوئی، چنانچہ بعض روایات میں اس کی صراحت بھی ہے۔ (فتح الباري:133/2)
(2) حضرت عائشہ ؓ سےروایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے تین مؤذن تھے: حضرت بلال ؓ ، حضرت ابو محذورہ ؓ اور حضرت عمرو بن ام مکتوم۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ابن ام مکتوم چونکہ نابینے آدمی ہیں، اس لیے ان کی اذان سے کسی دھوکے میں مت پڑنا، البتہ بلال کی اذان کے بعد کھانا پینا بند کردیں۔ اسی طرح حضرت انیسہ بنت خبیب ؓ کہتی ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب ابن ام مکتوم اذان دے تو کھاؤ پیو اور جب بلال اذان دے تو کھانا پینا موقوف کردو۔‘‘ (صحیح ابن خزیمة: 210/1، حدیث:404) یہ روایات صحیح بخاری کی روایت کے برعکس ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سحری اور فجر کی اذان کے لیے ان حضرات کی باری مقرر کر رکھی تھی۔ کبھی سحری کی اذان حضرت بلال کہتے تھے اور فجر کی اذان حضرت ابن ام مکتوم ؓ کے ذمے تھی جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں ہے اور کبھی سحری کی اذان حضرت ابن مکتوم کہتے تھے اور فجر کی اذان حضرت بلال کے ذمے تھی، اس بنا پر ان روایات میں کوئی تضاد نہیں۔ (عمدة القاري:182/1)