باب: اس بارے میں کہ سوائے قد قامت الصلاة کے اقامت کے کلمات ایک ایک دفعہ کہے جائیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: To pronounce the wording of Iqama once (in singles) except Qad-qamat-is-Salat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
617.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت بلال ؓ کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان (کے کلمات) جفت اور اقامت (کے کلمات) طاق (ایک ایک مرتبہ) کہیں۔ (راوی حدیث) اسماعیل کہتے ہیں: میں نے (اپنے شیخ) ایوب سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا: ہاں (اقامت کے کلمات طاق ہونے چاہئیں) سوائے قد قامت الصلاة کے (کہ انہیں دو مرتبہ کہا جائے)۔
تشریح:
(1) اقامت کے طاق کلمات کی وضاحت بایں طور ہے:(الله أكبر، الله أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمداً رسول الله، حي علي الصلاة، حي علي الفلاح، قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله) (سنن أبي داود، الأذان، حدیث:498) کلمات اذان کو دو مرتبہ اور اقامت کو ایک ایکمرتبہ کہنے میں حکمت یہ ہے کہ اذان سے غیر موجود حضرات کو اطلاع دینا مقصود ہے، اس لیے باربار کلمات کو دہرایا جاتا ہے تاکہ دور رہنے والے لوگوں کو خبر ہوجائے جبکہ اقامت سے صرف موجود لوگوں کو مطلع کرنا مقصود ہوتا ہے،اس لیے اسے ایک ایک مرتبہ کہا جاتا ہے اور اس میں قد قامت الصلاة کو دو مرتبہ کہنے میں یہ حکمت ہے کہ اقامت کہنے سے مقصود بالذات یہی ہے، یعنی حاضرین کو بتایا جائے کہ اب نماز کھڑی ہوچکی ہے۔ اذان کو بآواز بلند اور اقامت کو آہستہ آہستہ کہنے میں بھی یہی حکمت کار فرما ہے۔ والله أعلم. (فتح الباري :112/2) (2) ایک روایت میں ہے کہ اذان اور اقامت میں کلمات کو دودو مرتبہ کہا جائے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 194) لیکن یہ روایت ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ (ضعیف الترمذي، للألباني، حدیث:29) البتہ اقامت کے کلمات دودو مرتبہ کہنا بھی جائز ہے، لیکن ایک ایک مرتبہ کہنے والی احادیث زیادہ صحیح ہیں۔ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ اگر اذان دوہری کہی جائے جس کے انیس کلمات ہیں تو اس وقت تکبیر بھی دوہری ہونی چاہیے جس کے سترہ کلمات ہیں (سنن أبي داود، الأذان، حدیث:502) اور اگر عبداللہ بن زید کے خواب والی اکہری اذان دی جائے جس کے پندرہ کلمات ہیں تو اس وقت اقامت بھی اکہری ہونی چاہیے جس کے گیارہ کلمات ہیں۔ (سنن أبي داود، الأذان، حدیث:499) (3) بعض حضرات نے اس روایت کے پیش نظر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ حدیث:605 میں إلا الإقامة کے الفاظ حدیث کا حصہ نہیں بلکہ ایوب راوی نے اپنی طرف سے بطور وضاحت ذکر کیے ہیں۔اس موقف کی تائید میں ان کا کہنا ہے کہ ابو قلابہ سے روایت کرنے والے ایوب اور خالد الخداء ہیں اور مؤخر الذکر راوی جب حدیث بیان کرتےہیں تو وہ ان الفاظ کو بیان نہیں کرتے،لیکن یہ موقف مبنی برحقیقت نہیں کیونکہ ایوب راوی سے متصل سند کے ساتھ معمر نے اس حدیث کو بایں الفاظ بیان کیا ہے:حضرت بلال ؓ اذان کے کلمات دودو مرتبہ اور اقامت کے ایک ایک مرتبہ کہتے، البتہ قد قامت الصلاة کے الفاظ دودو مرتبہ کہتے تھے، نیز علامہ اسماعیلی ؒ نے اسی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث بایں الفاط بیان کی ہے:حضرت بلال ؓ قد قامت الصلاة کے الفاظ دو مرتبہ کہتے تھے۔اصل بات یہ ہے کہ حدیث میں جو الفاظ بیان ہوں وہ حدیث کا حصہ ہوتے ہیں۔ ہاں، اگر کوئی قرینہ یا دلیل آجائے تو انھیں الحاق یا مدرج قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ اس مقام پر کوئی قرینہ نہیں ہے کہ إلا الإقامة کے الفاظ کو مدرج قرار دیا جاسکے۔ تائید میں جو بات کہی گئی ہے وہ اس لیے صحیح نہیں کہ ابو قلابہ سے اگرچہ خالد الخداء نے ان الفاظ کو بیان نہیں کیا،تاہم جب ان سے ایوب بیان کرتا ہے تو مذکورہ الفاظ کو ذکر کرتا ہے اور محدثین کے اصول کے مطابق ثقہ راوی کا اضافہ، جبکہ وہ اوثق یا ثقات کی مخالفت نہ کررہا ہو، قبول ہوتا ہے۔ (فتح الباري:110/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
603
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
607
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
607
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
607
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت بلال ؓ کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان (کے کلمات) جفت اور اقامت (کے کلمات) طاق (ایک ایک مرتبہ) کہیں۔ (راوی حدیث) اسماعیل کہتے ہیں: میں نے (اپنے شیخ) ایوب سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا: ہاں (اقامت کے کلمات طاق ہونے چاہئیں) سوائے قد قامت الصلاة کے (کہ انہیں دو مرتبہ کہا جائے)۔
حدیث حاشیہ:
(1) اقامت کے طاق کلمات کی وضاحت بایں طور ہے:(الله أكبر، الله أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمداً رسول الله، حي علي الصلاة، حي علي الفلاح، قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله) (سنن أبي داود، الأذان، حدیث:498) کلمات اذان کو دو مرتبہ اور اقامت کو ایک ایکمرتبہ کہنے میں حکمت یہ ہے کہ اذان سے غیر موجود حضرات کو اطلاع دینا مقصود ہے، اس لیے باربار کلمات کو دہرایا جاتا ہے تاکہ دور رہنے والے لوگوں کو خبر ہوجائے جبکہ اقامت سے صرف موجود لوگوں کو مطلع کرنا مقصود ہوتا ہے،اس لیے اسے ایک ایک مرتبہ کہا جاتا ہے اور اس میں قد قامت الصلاة کو دو مرتبہ کہنے میں یہ حکمت ہے کہ اقامت کہنے سے مقصود بالذات یہی ہے، یعنی حاضرین کو بتایا جائے کہ اب نماز کھڑی ہوچکی ہے۔ اذان کو بآواز بلند اور اقامت کو آہستہ آہستہ کہنے میں بھی یہی حکمت کار فرما ہے۔ والله أعلم. (فتح الباري :112/2) (2) ایک روایت میں ہے کہ اذان اور اقامت میں کلمات کو دودو مرتبہ کہا جائے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 194) لیکن یہ روایت ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ (ضعیف الترمذي، للألباني، حدیث:29) البتہ اقامت کے کلمات دودو مرتبہ کہنا بھی جائز ہے، لیکن ایک ایک مرتبہ کہنے والی احادیث زیادہ صحیح ہیں۔ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ اگر اذان دوہری کہی جائے جس کے انیس کلمات ہیں تو اس وقت تکبیر بھی دوہری ہونی چاہیے جس کے سترہ کلمات ہیں (سنن أبي داود، الأذان، حدیث:502) اور اگر عبداللہ بن زید کے خواب والی اکہری اذان دی جائے جس کے پندرہ کلمات ہیں تو اس وقت اقامت بھی اکہری ہونی چاہیے جس کے گیارہ کلمات ہیں۔ (سنن أبي داود، الأذان، حدیث:499) (3) بعض حضرات نے اس روایت کے پیش نظر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ حدیث:605 میں إلا الإقامة کے الفاظ حدیث کا حصہ نہیں بلکہ ایوب راوی نے اپنی طرف سے بطور وضاحت ذکر کیے ہیں۔اس موقف کی تائید میں ان کا کہنا ہے کہ ابو قلابہ سے روایت کرنے والے ایوب اور خالد الخداء ہیں اور مؤخر الذکر راوی جب حدیث بیان کرتےہیں تو وہ ان الفاظ کو بیان نہیں کرتے،لیکن یہ موقف مبنی برحقیقت نہیں کیونکہ ایوب راوی سے متصل سند کے ساتھ معمر نے اس حدیث کو بایں الفاظ بیان کیا ہے:حضرت بلال ؓ اذان کے کلمات دودو مرتبہ اور اقامت کے ایک ایک مرتبہ کہتے، البتہ قد قامت الصلاة کے الفاظ دودو مرتبہ کہتے تھے، نیز علامہ اسماعیلی ؒ نے اسی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث بایں الفاط بیان کی ہے:حضرت بلال ؓ قد قامت الصلاة کے الفاظ دو مرتبہ کہتے تھے۔اصل بات یہ ہے کہ حدیث میں جو الفاظ بیان ہوں وہ حدیث کا حصہ ہوتے ہیں۔ ہاں، اگر کوئی قرینہ یا دلیل آجائے تو انھیں الحاق یا مدرج قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ اس مقام پر کوئی قرینہ نہیں ہے کہ إلا الإقامة کے الفاظ کو مدرج قرار دیا جاسکے۔ تائید میں جو بات کہی گئی ہے وہ اس لیے صحیح نہیں کہ ابو قلابہ سے اگرچہ خالد الخداء نے ان الفاظ کو بیان نہیں کیا،تاہم جب ان سے ایوب بیان کرتا ہے تو مذکورہ الفاظ کو ذکر کرتا ہے اور محدثین کے اصول کے مطابق ثقہ راوی کا اضافہ، جبکہ وہ اوثق یا ثقات کی مخالفت نہ کررہا ہو، قبول ہوتا ہے۔ (فتح الباري:110/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ بن مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد حذاء نے ابوقلابہ سے بیان کیا، انھوں نے انس ؓ سے کہ بلال ؓ کو حکم دیا گیا کہ اذان کے کلمات دو دو دفعہ کہیں اور تکبیر میں یہی کلمات ایک ایک دفعہ۔ اسماعیل نے بتایا کہ میں نے ایوب سختیانی سے اس حدیث کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا مگر لفظ قد قامت الصلوٰة دو ہی دفعہ کہا جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
امام المحدثین ؒ نے اکہری اقامت کے مسنون ہونے کے بارے میں یہ باب منعقد فرمایاہے اورحدیث بلال ؓ سے اسے مدلل کیاہے۔ یہاں صیغہ مجہول امربلال وارد ہواہے۔ مگر بعض طرق صحیحہ میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ أن النبي صلی اللہ علیه وسلم أمربلالا أن یشفع الأذان ویوتر الإقامة۔(کذا رواہ النسائي)یعنی حضرت بلال ؒ کو اکہری تکبیر کا حکم فرمانے والے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ محدث مبارک پوری صاحب ؒ تحفۃ الاحوذی میں فرماتے ہیں: وبهذا ظهر بطلان قول العیني في شرح الکنزلاحجة لهم فیه لأنه لم یذکر الأمر فیحتمل أن یکون هوالنبي صلی اللہ علیه وسلم أوغیرہ۔(تحفة الأحوذي) یعنی سنن نسائی میں آمدہ تفصیل سے علامہ عینی کے اس قول کا بطلان ظاہر ہوگیا جوانھوں نے شرح کنزمیں لکھاہے کہ اس حدیث میں احتمال ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم کرنے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوں یا آپ کے علاوہ کوئی اورہو۔ لہٰذا اس سے اکہری تکبیر کا ثبوت صحیح نہیں ہے۔ یہ علامہ عینی صاحب مرحوم کی تاویل کس قدر باطل ہے، مزید وضاحت کی ضرورت نہیں۔ اکہری تکبیر کے بارے میں احمد، ابوداؤد، نسائی میں اس قدر روایات ہیں کہ سب کو جمع کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ مولانا مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں:قَالَ الْحَازِمِيُّ فِي كِتَابِ الِاعْتِبَارِ رَأَى أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْإِقَامَةَ فُرَادَى وَإِلَى هَذَا الْمَذْهَبِ ذَهَبَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ وَالزُّهْرِيُّ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَأَهْلُ الْحِجَازِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَصْحَابُهُ وَإِلَيْهِ ذَهَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَمَكْحُولٌ وَالْأَوْزَاعِيُّ وَأَهْلُ الشَّامِ وَإِلَيْهِ ذَهَبَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَمَنْ تبعهم من العراقيين وإليه ذهب يحيى بن يَحْيَى وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ وَمَنْ تَبِعَهُمَا مِنَ الْخُرَاسَانِيِّينَ وَذَهَبُوا فِي ذَلِكَ إِلَى حَدِيثِ أَنَسٍ انْتَهَى كَلَامُ الْحَازِمِيِّ۔(تحفة الأحوذي)یعنی امام حازمی نے کتاب الاعتبار میں اکثر اہل علم کا یہی فتویٰ نقل کیاہے کہ تکبیر اکہری کہنا مسنون ہے۔ ان علماءمیں حجازی، شامی، عراقی اور خراسانی یہ تمام علماءاس کے قائل ہیں۔ جن کے اسماءگرامی علامہ حازمی صاحب نے پیش فرمائے ہیں۔ آخر میں علامہ مبارک پوری مرحوم نے کس قدر منصفانہ فیصلہ دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:وَالْحَقُّ أَنَّ أَحَادِيثَ إِفْرَادِ الْإِقَامَةِ صَحِيحَةٌ ثَابِتَةٌ مُحْكَمَةٌ لَيْسَتْ بِمَنْسُوخَةٍ وَلَا بِمُؤَوَّلَةٍ نَعَمْ قَدْ ثَبَتَ أَحَادِيثُ تَثْنِيَةِ الْإِقَامَةِ أَيْضًا وَهِيَ أَيْضًا مُحْكَمَةٌ لَيْسَتْ بِمَنْسُوخَةٍ وَلَا بِمُؤَوَّلَةٍ وَعِنْدِي الْإِفْرَادُ وَالتَّثْنِيَةُ كِلَاهُمَا جَائِزَانِ وَاَللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ۔(تحفة الأحوذي، ج1، ص:172)یعنی حق بات یہی ہے کہ اکہری تکبیر والی احادیث صحیح، ثابت محکم ہیں۔ نہ وہ منسوخ ہیں نہ قابل تاویل ہیں، اسی طرح دوہری تکبیر کی احادیث بھی محکم ہیں اوروہ بھی منسوخ نہیں ہیں۔ نہ قابل تاویل ہیں۔ پس میرے نزدیک ہر دوطرح سے تکبیر کہنا جائز ہے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے: ہمارے عوام نہیں بلکہ خواص حنفی حضرات اگرکبھی اتفاقاً کہیں اکہری تکبیر سن پاتے ہیں تو فوراً ہی مشتعل ہوجاتے ہیں اوربعض متعصّب اس اکہری تکبیر کوباطل قرار دے کر دوبارہ دوہری تکبیرکہلواتے ہیں۔ اہل علم حضرات سے ایسی حرکت انتہائی مذموم ہے جو اپنی علمی ذمہ داریوں کو ذرا بھی محسوس نہیں کرتے۔ بنظر انصاف دیکھا جائے تو یہی حضرات افتراق امت کے مجرم ہیں۔ جنھوں نے جزئی وفروعی اختلافات کو ہوا دے کر اسلام میں فرقہ بندی کی بنیاد رکھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسی کا نام تقلید جامد ہے۔ جب تک امت ان اختلافات کو فراموش کرکے اسلامی تعلیمات کے ہر پہلو کے لیے اپنے دلوںمیں گنجائش نہ پیدا کرے گی امت میں اتفاق مشکل ہے۔ اگرکچھ مخلصین ذمہ دار علماء اس کے لیے تہیہ کرلیں تو کچھ مشکل بھی نہیں ہے۔ جب کہ آج پوری دنیائے اسلام موت و حیات کی کشمکش میں مبتلاہے ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے عوام وخواص کو بتلایا جائے کہ اتفاق باہمی کتنی عمدہ چیز ہے۔ الحمد للہ کہ آج تک کسی اہل حدیث مسجد سے متعلق ایسا کوئی کیس نہیں مل سکے گا کہ وہاں کسی حنفی بھائی نے دوہری تکبیرکہی ہو اوراس پر اہل حدیث کی طرف سے کبھی بلوہ ہوگیا ہو۔ برخلاف اس کے کتنی ہی مثالیں موجود ہیں۔ اللہ پاک مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے کہ وہ کلمہ اورقرآن اورکعبہ وتوحید ورسالت پر متفق ہوکر اسلام کوسربلند کرنے کی کوشش کریں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Qilaba (RA): Anas (RA) said, " Bilal (RA) was ordered to pronounce the wording of Adhan twice and of Iqama once only." The sub narrator Isma'li said, "I mentioned that to Aiyub and he added (to that), "Except Iqama (i.e. Qad-Qamatis-Salat which should be said twice)."