باب: مہمان کو اپنے میزبان سے کہنا کہ جب تک تم ساتھ نہ کھاؤگے میں بھی نہیں کھاؤں گا
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: "By Allah, I will not eat till you eat.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس باب میں ابو جحیفہ کی ایک حدیث نبی کریم ﷺ سے مروی ہے ۔
6196.
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ایک یا کئی مہمان لے کر گھر آئے، پھر آپ شام ہی سے نبی ﷺ کی خدمت میں چلے گئے۔ جب وہ لوٹ کر آئے تو ان سے میری والدہ نے کہا: آج مہمانوں کو چھوڑ کر آپ کہاں رہ گئے تھے؟ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا: کیا تم نے کھانا پیش کیا تھا لیکن انہوں نے کھانے سےانکار کر دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو یہ سن کر بہت غصہ آیا اور اہل خانہ کو برا بھلا کہا: پھر قسم اٹھائی کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں تو (مارے ڈر کے) چھپ گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے آواز دی: اے جاہل! (تو کدھر ہے؟) میری والدہ نے بھی قسم اٹھالی کہ اگر آپ کھانا نہیں کھائیں گے تو وہ بھی نہیں کھائے گی۔ ادھر مہمانوں نے بھی قسم اٹھالی کہ جب تک حضرت ابوبکر صدیق ؓ کھانا نہیں کھائیں گے وہ (مہمان) بھی نہیں کھائیں گے۔ آخر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ غصہ اور برہمی شیطان کی طرف سے تھی۔ پھر آپ نے کھانا منگوایا خود بھی کھایا اور مہمانوں کو بھی کھلایا۔ اس دوران میں جب وه لقمہ اٹھاتے تو ینچے سے کھانا اور بڑھ جاتا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ منظر دیکھ کر کہا: اے قبیلہ بنو فراس کی بہن! یہ کیا ہورہا ہے؟ انہوں نے کہا: میری آنکھوں کی ٹھنڈک! بلاشبہ اب تو یہ اس سے بھی زیادہ ہو چکا ہے جتنا یہ ہمارے کھانے سے پہلے تھا پر ان سب نے کھایا اور بچا ہوا کھانا نبی ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ انہوں نے ذکر کیا کہ آپ ﷺ نے بھی اس کھانے میں سے کھایا۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں وضاحت ہے کہ وہ کھانا اللہ کے فضل و کرم سے تین گنا زیادہ ہو گیا۔ حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم وہ کھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے تو وہاں بہت سے لوگ جمع تھے کیونکہ ہمارا ایک قوم سے معاہدہ تھا جس کی مدت ختم ہو چکی تھی، وہاں بارہ سرکردہ لوگ تھے اور ہر سربراہ کے ساتھ بہت سے لوگ موجود تھے، ان کی تعداد اللہ ہی جانتا ہے، بہرحال وہ بچا ہوا کھانا وہاں موجود تمام لوگوں نے سیر ہو کر کھایا۔ (صحیح البخاري،الأذان، حدیث:602) (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی موقع پر بے تکلفی کے انداز میں کوئی مہمان اپنے میزبان سے کہہ دے کہ آپ میرے ساتھ کھانا کھائیں گے تو میں کھاؤں گا اور اس پر قسم اٹھا لے تو اخلاقاً ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کے برعکس میزبان کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5916
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6141
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6141
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6141
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
مہمان اگر بے تکلفی کے انداز میں میزبان سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ میرے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائے، اگر وہ اس سلسلے میں قسم بھی اٹھا لیتا ہے تو کوئی حرج نہیں، میزبان کو چاہیے کہ وہ مہمان کی خواہش کو پورا کرے۔ اگر کوئی معقول عذر نہ ہو تو اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانے میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کا بھی اسی نوعیت کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری، الادب، حدیث:6139)
اس باب میں ابو جحیفہ کی ایک حدیث نبی کریم ﷺ سے مروی ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ایک یا کئی مہمان لے کر گھر آئے، پھر آپ شام ہی سے نبی ﷺ کی خدمت میں چلے گئے۔ جب وہ لوٹ کر آئے تو ان سے میری والدہ نے کہا: آج مہمانوں کو چھوڑ کر آپ کہاں رہ گئے تھے؟ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا: کیا تم نے کھانا پیش کیا تھا لیکن انہوں نے کھانے سےانکار کر دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو یہ سن کر بہت غصہ آیا اور اہل خانہ کو برا بھلا کہا: پھر قسم اٹھائی کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں تو (مارے ڈر کے) چھپ گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے آواز دی: اے جاہل! (تو کدھر ہے؟) میری والدہ نے بھی قسم اٹھالی کہ اگر آپ کھانا نہیں کھائیں گے تو وہ بھی نہیں کھائے گی۔ ادھر مہمانوں نے بھی قسم اٹھالی کہ جب تک حضرت ابوبکر صدیق ؓ کھانا نہیں کھائیں گے وہ (مہمان) بھی نہیں کھائیں گے۔ آخر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ غصہ اور برہمی شیطان کی طرف سے تھی۔ پھر آپ نے کھانا منگوایا خود بھی کھایا اور مہمانوں کو بھی کھلایا۔ اس دوران میں جب وه لقمہ اٹھاتے تو ینچے سے کھانا اور بڑھ جاتا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ منظر دیکھ کر کہا: اے قبیلہ بنو فراس کی بہن! یہ کیا ہورہا ہے؟ انہوں نے کہا: میری آنکھوں کی ٹھنڈک! بلاشبہ اب تو یہ اس سے بھی زیادہ ہو چکا ہے جتنا یہ ہمارے کھانے سے پہلے تھا پر ان سب نے کھایا اور بچا ہوا کھانا نبی ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ انہوں نے ذکر کیا کہ آپ ﷺ نے بھی اس کھانے میں سے کھایا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں وضاحت ہے کہ وہ کھانا اللہ کے فضل و کرم سے تین گنا زیادہ ہو گیا۔ حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم وہ کھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے تو وہاں بہت سے لوگ جمع تھے کیونکہ ہمارا ایک قوم سے معاہدہ تھا جس کی مدت ختم ہو چکی تھی، وہاں بارہ سرکردہ لوگ تھے اور ہر سربراہ کے ساتھ بہت سے لوگ موجود تھے، ان کی تعداد اللہ ہی جانتا ہے، بہرحال وہ بچا ہوا کھانا وہاں موجود تمام لوگوں نے سیر ہو کر کھایا۔ (صحیح البخاري،الأذان، حدیث:602) (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی موقع پر بے تکلفی کے انداز میں کوئی مہمان اپنے میزبان سے کہہ دے کہ آپ میرے ساتھ کھانا کھائیں گے تو میں کھاؤں گا اور اس پر قسم اٹھا لے تو اخلاقاً ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کے برعکس میزبان کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
اس سلسلے میں حضرت ابو جحیفہ ؓ سے مروی ایک حدیث ہے جو انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کی ہے
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمدبن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے سلیمان ابن طرفان نے، ان سے ابو عثمان نہدی نے کہ عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر ؓ اپنا ایک مہمان یا کئی مہمان لے کر گھر آئے۔ پھر آپ شام ہی سے نبی کریم ﷺ کے پاس چلے گئے، جب وہ لوٹ کر آئے تو میری والدہ نے کہا کہ آج اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر آپ کہا ں رہ گئے تھے۔ ابوبکر ؓ نے پوچھا کیا تم نے ان کو کھانا نہیں کھلایا۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے تو کھانا ان کے سامنے پیش کیا لیکن انہوں نے انکار کیا۔ یہ سن کر ابو بکر ؓ کو غصہ آیا اورانہوں نے (گھر والوں کو) برا بھلا کہا اور دکھ کا اظہار کیا اور قسم کھالی کہ میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں تو ڈر کے مارے چھپ گیا تو آپ نے پکارا کہ اے پاجی! کدھر ہے تو ادھر آ۔ میری والدہ نے بھی قسم کھالی کہ اگروہ کھانا نہیں کھائیں گے تووہ بھی نہیں کھائیں گی۔ اس کے بعد مہمانوں نے بھی قسم کھا لی کہ اگر ابو بکر نہیں کھائیں گے تو وہ بھی نہیں کھائیں گے۔ آخر حضرت ابو بکر ؓ نے کہا کہ یہ غصہ کرنا شیطانی کام تھا، پھر آپ نے کھانا منگوایا اور خود بھی مہمانوں کے ساتھ کھایا (اس کھانے میں یہ برکت ہوئی) جب یہ لوگ ایک لقمہ اٹھاتے تو نیچے سے کھانا اور بھی بڑھ جاتا تھے۔ ابو بکر ؓ نے کہا اے بنی فراس کی بہن! یہ کیا ہو رہا ہے، کھانا تو اور بڑھ گیا۔ انہوں نے کہا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک! اب یہ اس سے بھی زیادہ ہوگیا۔ جب ہم نے کھانا کھایا بھی نہیں تھا۔ پھر سب نے کھایا اور اس میں سے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بھیجا، کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے بھی اس کھانے میں سے کھایا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی زوجہ ام رومان بنی فراس قبیلے سے تھیں ان کا نام زینب تھا۔ حضرت امام بخاری کا منشائے باب یہ ہے کہ گاہے کوئی ایسا موقع ہو کہ میزبان سے مہمان ایسا لفظ کہہ دے کہ آپ جب تک ساتھ میں نہ کھائیں گے میں بھی نہیں کھاؤں گا تو اخلاقاً ایسا کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور بر عکس میزبان کے لئے بھی یہی بات ہے، بہر حال میزبان کا فرض ہے کہ حتی الامکان مہمان کا اکرام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے اور مہمان کا فرض ہے کہ میزبان کے گھر زیادہ ٹھہر کر اس کے لئے تکلیف کا موجب نہ بنے۔ یہ اسلامی آداب واخلاق وتمدن ومعاشرت کی باتیں ہیں، اللہ پاک ہرموقع پر ان کو معمول بنانے کی توفیق بخشے آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdur-Rahman bin Abu Bakr (RA) : Abu Bakr (RA) came with a guest or some guests, but he stayed late at night with the Prophet (ﷺ) and when he came, my mother said (to him), "Have you been detained from your guest or guests tonight?" He said, "Haven't you served the supper to them?" She replied, "We presented the meal to him (or to them), but he (or they) refused to eat." Abu Bakr (RA) became angry, rebuked me and invoked Allah to cause (my) ears to be cut and swore not to eat of it!" I hid myself, and he called me, "O ignorant (boy)!" Abu Bakr's wife swore that she would not eat of it and so the guests or the guest swore that they would not eat of it till he ate of it. Abu Bakr (RA) said, "All that happened was from Satan." So he asked for the meals and ate of it, and so did they. Whenever they took a handful of the meal, the meal grew (increased) from underneath more than that mouthful. He said (to his wife), "O, sister of Bani Firas! What is this?" She said, "O, pleasure of my eyes! The meal is now more than it had been before we started eating'' So they ate of it and sent the rest of that meal to the Prophet. It is said that the Prophet (ﷺ) also ate of it.