تشریح:
(1) اس روایت میں حضرت ابن ام مکتوم ؓ کی اذان کو حضرت بلال ؓ کی اذان کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے، نیز اس میں یہ بھی صراحت ہے کہ حضرت بلال رات کو اذان کہتے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن مکتوم کی اذان رات کے وقت نہیں تھی، بلکہ رات کے اختتام پر طلوع فجر کے بعد ہوتی تھی۔ وهو المقصود
(2) واضح رہے کہ بعض روایات اس کے برعکس ہیں۔ ان میں ہے کہ ابن ام مکتوم رات کے وقت اذان دیتے ہیں، اس لیے کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ حضرت بلال اذان دیں، بلکہ صحیح ابن خزیمہ کی روایت میں صراحت ہے کہ جب عمرو بن ام مکتوم اذان دیں تو کسی کو دھوکے میں نہیں رہنا چاہیے وہ نابینا ہیں، اس لیے اس اذان کے بعد سحری کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں، لیکن جب حضرت بلال اذان دیں تو کھانا پینا بند کردیا جائے۔ حضرت عائشہ ؓ کے متعلق روایات میں ہے کہ وہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے بیان کو غلط کہتی تھیں، فرماتی تھیں کہ بلال کی ذمے داری تھی کہ وہ طلوع فجر کو دیکھتے رہیں۔ ان متعارض روایات کی تطبیق بایں طور ہے کہ جب اذان کا آغاز ہوا تو صبح کی اذان بھی حضرت بلال کہتے تھے۔ جیسا کہ ایک صحابیہ فرماتی ہیں کہ میرا مکان مدینے میں سب سے اونچا تھا۔ حضرت بلال میرے مکان کی چھت پر چڑھ جاتے اور طلوع فجر کو دیکھتے رہتے، جب فجر طلوع ہوجاتی تو انگڑائی لیتے اور اذان کہنا شروع کردیتے، اس کے بعد حضرت ابن ام مکتوم کو سحری کی اذان پر متعین کیا گیا۔ ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا، آخر کار حضرت ابن مکتوم کو اذان فجر پر مقرر کردیا گیا اور حضرت بلال کو سحری کی اذان سونپ دی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بعض اوقات حضرت بلال غلبۂ نیند کی وجہ سے اذان فجر قبل از وقت کہہ دیتے جس کی بعد میں تلافی کرنی پڑتی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اذان فجر کے لیے حضرت ابن ام مکتوم کی ڈیوٹی لگا دی، چونکہ وہ نابینا تھے، اس لیے وہ اس وقت اذان دیتے جب انھیں طلوع فجر کے متعلق اطلاع دی جاتی۔ (فتح الباري:135/2-136)