Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: To suspend fighting on hearing the Adhan)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
620.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ جب بھی ہمارے ساتھ کسی قوم پر چڑھائی کرتے تو اس وقت تک حملہ نہ کرتے جب تک صبح نہ ہو جاتی۔ اور آپ انتظار فرماتے، اگر اذان سن لیتے تو حملے کا ارادہ ترک کر دیتے اور اگر اذان نہ سنتے تو ان پر غارت گری کرتے، چنانچہ ہم لوگ خیبر کی لڑائی کے لیے نکلے تو ہم رات کو ان کے ہاں پہنچے، جب صبح ہوئی اور نبی ﷺ نے اذان نہ سنی تو آپ سوار ہوئے۔ میں بھی حضرت ابوطلحہ ؓ کے پیچھے سوار ہو گیا، میرا پاؤں نبی ﷺ کے قدم مبارک سے چھو رہا تھا۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: خیبر کے لوگ اپنے ٹوکرے اور دیگر آلات زراعت لے کر کام کاج کے لیے باہر نکلے، جب انہوں نے نبی ﷺ کو دیکھا تو کہنے لگے کہ محمد، اللہ کی قسم! محمد (ﷺ) پوری فوج کے ساتھ آ گئے۔ حضرت انس ؓ نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ نے انہیں دیکھا تو فرمایا:’’ الله أكبر، الله أكبر، خیبر برباد ہو گیا۔ یقینا جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح خراب ہو جاتی ہے جنہیں پہلے ڈرایا گیا ہو۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے اذان کی فضیلت بھی معلوم ہوتی ہے اور ایک شرعی حکم کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اذان کی فضیلت بایں طور ہے کہ محض اس کی آواز سننے سے بستی والوں کے مال اور خون محفوظ ہوجاتے ہیں۔ اور شرعی حکم یہ ہے کہ اگر کسی بستی سے اذان کی آواز آجائے تو وہاں حملہ کرنا جائز نہیں۔ یہ اس لیے کہ اذان، دین اسلام کی ایک بہت بڑی نشانی ہے، اس کا ترک کسی صورت جائز نہیں۔ جس بستی سے اذان کی آواز بلند ہو، اسلام اس بستی کے باشندگان کے مال وجان کی ضمانت دیتا ہے، نیز جس طرح اسلام کا اظہار شہادتین کے اقرار سے ہوتا ہے، اسی طرح عمل سے بھی ہوتا ہے، چنانچہ اگر کسی کافر کو اذان پڑھتے دیکھیں تو اسے قتل کرنا جائز نہیں، پھر جب تک اس سے کوئی کفر یہ عمل سرزد نہ ہو، اسے مسلمان ہی خیال کرنا چاہیے۔ (2) دراصل امام بخاری ؒ اذان کے ثمرات بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اذان کا وجود لوگوں کے مال وخون کے محفوظ ہونے کی ضمانت دیتا ہے، چنانچہ ایک روایت میں اس کی بایں طور وضاحت ہے کہ رسول ا للہ ﷺ طلوع فجر کے وقت حملہ آور ہوتے تھے۔ آپ اذان کا انتطار کرتے، اگر اذان کی آواز سن لیتے تو حملہ کرنے سے رک جاتے اور اگر اذان کی آواز نہ آتی تو وہاں حملہ کردیتے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 847(382))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
606
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
610
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
610
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
610
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ جب بھی ہمارے ساتھ کسی قوم پر چڑھائی کرتے تو اس وقت تک حملہ نہ کرتے جب تک صبح نہ ہو جاتی۔ اور آپ انتظار فرماتے، اگر اذان سن لیتے تو حملے کا ارادہ ترک کر دیتے اور اگر اذان نہ سنتے تو ان پر غارت گری کرتے، چنانچہ ہم لوگ خیبر کی لڑائی کے لیے نکلے تو ہم رات کو ان کے ہاں پہنچے، جب صبح ہوئی اور نبی ﷺ نے اذان نہ سنی تو آپ سوار ہوئے۔ میں بھی حضرت ابوطلحہ ؓ کے پیچھے سوار ہو گیا، میرا پاؤں نبی ﷺ کے قدم مبارک سے چھو رہا تھا۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: خیبر کے لوگ اپنے ٹوکرے اور دیگر آلات زراعت لے کر کام کاج کے لیے باہر نکلے، جب انہوں نے نبی ﷺ کو دیکھا تو کہنے لگے کہ محمد، اللہ کی قسم! محمد (ﷺ) پوری فوج کے ساتھ آ گئے۔ حضرت انس ؓ نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ نے انہیں دیکھا تو فرمایا:’’ الله أكبر، الله أكبر، خیبر برباد ہو گیا۔ یقینا جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح خراب ہو جاتی ہے جنہیں پہلے ڈرایا گیا ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے اذان کی فضیلت بھی معلوم ہوتی ہے اور ایک شرعی حکم کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اذان کی فضیلت بایں طور ہے کہ محض اس کی آواز سننے سے بستی والوں کے مال اور خون محفوظ ہوجاتے ہیں۔ اور شرعی حکم یہ ہے کہ اگر کسی بستی سے اذان کی آواز آجائے تو وہاں حملہ کرنا جائز نہیں۔ یہ اس لیے کہ اذان، دین اسلام کی ایک بہت بڑی نشانی ہے، اس کا ترک کسی صورت جائز نہیں۔ جس بستی سے اذان کی آواز بلند ہو، اسلام اس بستی کے باشندگان کے مال وجان کی ضمانت دیتا ہے، نیز جس طرح اسلام کا اظہار شہادتین کے اقرار سے ہوتا ہے، اسی طرح عمل سے بھی ہوتا ہے، چنانچہ اگر کسی کافر کو اذان پڑھتے دیکھیں تو اسے قتل کرنا جائز نہیں، پھر جب تک اس سے کوئی کفر یہ عمل سرزد نہ ہو، اسے مسلمان ہی خیال کرنا چاہیے۔ (2) دراصل امام بخاری ؒ اذان کے ثمرات بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اذان کا وجود لوگوں کے مال وخون کے محفوظ ہونے کی ضمانت دیتا ہے، چنانچہ ایک روایت میں اس کی بایں طور وضاحت ہے کہ رسول ا للہ ﷺ طلوع فجر کے وقت حملہ آور ہوتے تھے۔ آپ اذان کا انتطار کرتے، اگر اذان کی آواز سن لیتے تو حملہ کرنے سے رک جاتے اور اگر اذان کی آواز نہ آتی تو وہاں حملہ کردیتے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 847(382))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر انصاری نے حمید سے بیان کیا، انھوں نے حضرت انس ؓ سے کہ جب نبی کریم ﷺ ہمیں ساتھ لے کر کہیں جہاد کے لیے تشریف لے جاتے، تو فوراً ہی حملہ نہیں کرتے تھے۔ صبح ہوتی اور پھر آپ انتظار کرتے اگر اذان کی آواز سن لیتے تو حملہ کا ارادہ ترک کر دیتے اور اگر اذان کی آواز نہ سنائی دیتی تو حملہ کرتے تھے۔ انس ؓ نے کہا کہ ہم خیبر کی طرف گئے اور رات کے وقت وہاں پہنچے۔ صبح کے وقت جب اذان کی آواز نہیں سنائی دی تو آپ اپنی سواری پر بیٹھ گئے اور میں ابوطلحہ ؓ کے پیچھے بیٹھ گیا۔ چلنے میں میرے قدم نبی ﷺ کے قدم مبارک سے چھو چھو جاتے تھے۔ انس ؓ نے کہا کہ خبیر کے لوگ اپنے ٹوکروں اور کدالوں کو لیے ہوئے ( اپنے کام کاج کو ) باہر نکلے۔ تو انھوں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا، اور چلا اٹھے کہ “ محمد واللہ محمد ( ﷺ ) پوری فوج سمیت آ گئے۔ انس نے کہا کہ جب نبی ﷺ نے انھیں دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ أکبر اللہ أکبر خیبر پر خرابی آ گئی۔ بے شک جب ہم کسی قوم کے میدان میں اتر جائیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہو گی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام خطابی ؒ فرماتے ہیں کہ اذان اسلام کی ایک بڑی نشانی ہے۔ اس لیے اس کا ترک کرنا جائز نہیں۔ جس بستی سے اذان کی آواز بلند ہواس بستی والوں کے لیے اسلام جان اورمال کی حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے۔ حضرت ابوطلحہ ؓ حضرت انس ؓ کی والدہ کے دوسرے شوہرہیں۔ گویا حضرت انس کے سوتیلے باپ ہیں۔ خمیس پورے لشکر کو کہتے ہیں جس میں پانچوں ٹکڑیاں ہوں یعنی میمنہ، میسرہ، قلب، مقدمہ، ساقہ۔ حدیث اورباب میں مطابقت ظاہر ہے۔ إنا إذا نزلنا سورہ صافات کی آیت کا اقتباس ہے جو یوں ہے: فإذا نزل بساحتهم فساء صباح المنذرین ( الصافات:177 )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Humaid (RA): Anas bin Malik (RA) said, "Whenever the Prophet (ﷺ) went out with us to fight (in Allah's cause) against any nation, he never allowed us to attack till morning and he would wait and see: if he heard Adhan he would postpone the attack and if he did not hear Adhan he would attack them." Anas (RA) added, "We reached Khaibar at night and in the morning when he did not hear the Adhan for the prayer, he (the Prophet) rode and I rode behind Abi Talha and my foot was touching that of the Prophet (ﷺ). The inhabitants of Khaibar came out with their baskets and spades and when they saw the Prophet (ﷺ) they shouted ' Muhammad (ﷺ) ! By Allah, Muhammad and his army.' When Allah's Apostle (ﷺ) saw them, he said, "Allahu-Akbar! Allahu-Akbar! Khaibar is ruined. Whenever we approach a (hostile) nation (to fight), then evil will be the morning of those who have been warned."