قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَدَبِ (بَابُ كُنْيَةِ المُشْرِكِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ مِسْوَرٌ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺيَقُولُ: «إِلَّا أَنْ يُرِيدَ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ»

6207. حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، ح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عَتِيقٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ عَلَى حِمَارٍ، عَلَيْهِ قَطِيفَةٌ فَدَكِيَّةٌ، وَأُسَامَةُ وَرَاءَهُ، يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِي بَنِي حَارِثِ بْنِ الخَزْرَجِ، قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ، فَسَارَا حَتَّى مَرَّا بِمَجْلِسٍ فِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، فَإِذَا فِي المَجْلِسِ أَخْلاَطٌ مِنَ المُسْلِمِينَ وَالمُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الأَوْثَانِ وَاليَهُودِ، وَفِي المُسْلِمِينَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ، فَلَمَّا غَشِيَتِ المَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ، خَمَّرَ ابْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ وَقَالَ: لاَ تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا، فَسَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ ثُمَّ وَقَفَ، فَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ وَقَرَأَ عَلَيْهِمُ القُرْآنَ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ: أَيُّهَا المَرْءُ، لاَ أَحْسَنَ مِمَّا تَقُولُ إِنْ كَانَ حَقًّا، فَلاَ تُؤْذِنَا بِهِ فِي مَجَالِسِنَا، فَمَنْ جَاءَكَ فَاقْصُصْ عَلَيْهِ. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَاغْشَنَا فِي مَجَالِسِنَا، فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ، فَاسْتَبَّ المُسْلِمُونَ وَالمُشْرِكُونَ وَاليَهُودُ حَتَّى كَادُوا يَتَثَاوَرُونَ، فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ حَتَّى سَكَتُوا، ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَابَّتَهُ، فَسَارَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيْ سَعْدُ، أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ - يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ - قَالَ كَذَا وَكَذَا» فَقَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: أَيْ رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ، اعْفُ عَنْهُ وَاصْفَحْ، فَوَالَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الكِتَابَ، لَقَدْ جَاءَ اللَّهُ بِالحَقِّ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ، وَلَقَدِ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ البَحْرَةِ عَلَى أَنْ يُتَوِّجُوهُ وَيُعَصِّبُوهُ بِالعِصَابَةِ، فَلَمَّا رَدَّ اللَّهُ ذَلِكَ بِالحَقِّ الَّذِي أَعْطَاكَ شَرِقَ بِذَلِكَ، فَذَلِكَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ. فَعَفَا عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ يَعْفُونَ عَنِ المُشْرِكِينَ وَأَهْلِ الكِتَابِ كَمَا أَمَرَهُمُ اللَّهُ، وَيَصْبِرُونَ عَلَى الأَذَى، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الكِتَابَ} [آل عمران: 186] الآيَةَ. وَقَالَ: {وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ} [البقرة: 109] فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَأَوَّلُ فِي العَفْوِ عَنْهُمْ مَا أَمَرَهُ اللَّهُ بِهِ حَتَّى أَذِنَ لَهُ فِيهِمْ، فَلَمَّا غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدْرًا، فَقَتَلَ اللَّهُ بِهَا مَنْ قَتَلَ مِنْ صَنَادِيدِ الكُفَّارِ وَسَادَةِ قُرَيْشٍ، فَقَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مَنْصُورِينَ غَانِمِينَ، مَعَهُمْ أُسَارَى مِنْ صَنَادِيدِ الكُفَّارِ، وَسَادَةِ قُرَيْشٍ، قَالَ ابْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ وَمَنْ مَعَهُ مِنَ المُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الأَوْثَانِ: هَذَا أَمْرٌ قَدْ تَوَجَّهَ، فَبَايِعُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الإِسْلاَمِ، فَأَسْلَمُوا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور مسور بن مخرمہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ، آپ نے فر مایا ، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ابو طالب کا بیٹا میری بیٹی کو طلاق دے دے ۔حضرت امام بخاری نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا کہ مشرک شخص کو اس کی کنیت سے یاد کر سکتے ہیں۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ نے ابو طالب کا بیٹا کہا۔ ابو طالب کنیت تھی اور وہ مشرک رہ کر مرے تھے۔ روایت ذیل میں ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی منافق کو اس کی کنیت ابو الحباب سے ذکر فرمایا۔

6207.

حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ گدھے پر سوار ہوئے جس پر فدک کی نبی ہوئی چادر بچھی تھی جبکہ اسامہ آپ کے پیچھے سوار تھے۔ آپ ﷺ قبیلہ حارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لے جا رہے تھے یہ واقعہ غزوہ بدر سے پہلے کا ہے۔ دونوں حضرات چلتے رہے حتٰی کہ ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا جبکہ وہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ اس مجلس میں کچھ مسلمان بھی تھے، بتوں کی پرستش کرنے والے مشرک اور یہودی بھی تھے۔ مسلمانوں میں حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی موجود تھے، جب مجلس پر سواری کا غبار اڑکر پڑا تو عبداللہ بن ابی نے چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا: ہم پر غبار نہ اڑاؤ۔ رسول اللہ ﷺ نے اہل مجلس کو سلام کہا۔ پھر وہاں ٹھہر گئے اور سواری سے اترے اور انہیں اللہ کے دین کی دعوت دی، نیز انہیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ عبداللہ بن ابی نے کہا: بھلے آدمی! جو کچھ تم نے پڑھ کر سنایا ہے اس سے بہتر کوئی کلا م نہیں ہو سکتا اگرچہ حق ہے مگر ہماری مجالس میں آ کر اس کی وجہ سے ہمیں اذیت نہ دیا کرو، ہاں جو تمہارے پاس آئے اسے یہ قصے سنا دیا کرو۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے کہا: کیوں نہیں: اللہ کے رسول! آپ ہماری مجالس میں تشریف لایا کریں۔ ہم اسے پسند کرتے ہیں اس معاملے میں مسلمانوں، مشرکین اور یہودیوں کا باہمی جھگڑا ہو گیا۔ قریب تھا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی پر اتر آئیں لیکن رسول اللہ ﷺ خاموش کراتے رہے۔ آخر جب تمام لوگ خاموش ہو گئے تو رسول اللہ ﷺ اپنی سواری پر بیٹھ کر (وہاں سے) تشریف لے گئے۔ جب سعد بن عبادہ ؓ کے پاس پہنچی تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: اے سعد! تم نے نہیں سنا کہ آج ابو حباب نے کس طرح کی باتیں کی ہیں؟ آپ کا ارشاد عبداللہ بن ابی کی طرف تھا۔ اس نے ایسا ایسا کہا ہے۔ سعد بن عبادہ ؓ نےکہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ اسے معاف کر دیں اور اس سے درگزر فرمائیں۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے! اللہ تعالٰی نے آپ کو حق دیا ہے جو آپ پر اتارا ہے آپ کے تشریف لانے سے پہلے اس بستی (مدینہ طیبہ) کے باشندے اس امر متفق ہو گئے تھے کہ اس کے سر پر تاج رکھیں اور اسے سرداروں کی سی پگڑی باندھیں لیکن اللہ تعالٰی نے سچا کلام دے آپ کو یہاں بھیج دیا۔ وہ اس بات سے چڑ گیا اور جو کچھ آپ نے آج ملاحظہ فرمایا ہے وہ اس جلن کی وجہ سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے (عبداللہ بن ابی کو) معاف کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام اللہ کے حکم کے مطابق مشرکین اور اہل کتاب سے اسی طرح درگزر کیا کرتے تھے اور ان کی طرف سے پہنچے والی تکلیفوں پر صبر کیا کرتے تھے جس طرح انہیں اللہ نے حکم دیا تھا۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: تم یقیناً ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے (تکلیف دو باتیں) ضرور سنو گے۔ دوسرے مقام پر فرمایا: ”اہل کتاب یہ خواہش کرتے ہیں (کہ تم کو ایمان لانے کے بعد کافر بنا دیں)“ چنانچہ رسول اللہ ﷺ انہیں معاف کرنے کے لیے اللہ کے حکم مطابق عمل کیا کرتے تھے انہیں معاف کرنے کے لیے اللہ کےحکم کے مطابق عمل کیا کرتے تھے حتٰی کہ آپ کو ان کے خلاف جہاد کرنے کی اجازت دی گئی۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نے غزوہ بدر لڑا اور اللہ کے حکم سے اس میں کفار کے بڑے بڑے بہادر اور قریش کے سردار قتل کیے گئے تو رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ فتح مند ہو کر اور مال غنیمت لے کر لوٹے ان کے ساتھ کافروں کے بڑے بڑے سرغنے اور قریش کے سردار قیدی بھی تھے۔ اس وقت عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں اور دیگر بت پرستوں نے کہا: اب اسلام کا معاملہ کامیاب ہوگیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اسلام پر بیعت کرلی اور( بظاہر ) مسلمان ہوگئے۔