تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز فجر کی اذان طلوع فجر سے پہلے جائز ہے، حالانکہ حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قبل از فجر اذان نماز فجر کے لیے ہوتی تھی، بلکہ اس اذان کے مقاصد ہی الگ ہیں، یعنی نماز تہجد سے فارغ ہوکر اذان فجر سے پہلے پہلے سحری کھانا اور نماز کےلیے بیدار ہوکر ضروریات سے فارغ ہونا تاکہ نماز فجر کی تیاری کی جاسکے، جبکہ اذان فجر کا مقصد انتہائے سحری کا اعلان اور نماز فجر کےلیے وقت کی اطلاع دینا ہے، اس لیے مناسب تھا کہ یہ عنوان بایں الفاظ ہوتا:’’فجر سے قبل سحری کی اذان دینا۔‘‘
(2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فجر دوطرح کی ہوتی ہے: ایک فجر کا ذب اور دوسری فجر صادق، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے خود اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ فجر کی دواقسام ہیں: ایک وہ جس میں کھانا حرام اور نماز پڑھنا جائز ہوتا ہے اور دوسری وہ جس میں نماز پڑھنا حرام اور کھانا تناول کرنا حلال ہوتاہے۔ ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ ایک وہ صبح ہے جو بھیڑیے کی دم کی طرح بالکل سیدھی آسمان میں اوپر چڑھتی معلوم ہوتی ہے۔ اس میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہوتا، البتہ کھانا تناول کرنے کو حرام نہیں کرتی۔ اور دوسری وہ جو آسمان کے کناروں میں دائیں بائیں پھیل جاتی ہے، یہ روزے دار کے لیےکھانے کو حرام کردیتی ہے اور اس میں نماز فجر ادا کرنا جائز اور حلال ہوتا ہے۔ (المستدرك للحاکم:1919/1، حدیث:687، 688)