تشریح:
(1) (خلق الله آدم علی صورته) کے دو مفہوم حسب ذیل ہیں: ٭ حضرت آدم علیہ السلام پیدائش سے اسی شکل و صورت پر تھے جس صورت پر وہ ہمیشہ رہے۔ ایسا نہیں ہوا کہ پیدائش کے وقت وہ چھوٹے ہوں پھر آہستہ آہستہ بڑے ہوتے گئے جیسا کہ ان کی اولاد میں ہوتا ہے۔ ٭ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی ذاتی صورت پر پیدا کیا جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی دوسرے کو مارے تو اس کے چہرے پر مارنے سے بچے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔‘‘ (مسند أحمد:251/2) اس کی تائید ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چہروں کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ آدم کو رحمٰن کی صورت پر پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ (السنة لابن أبي عاصم، حدیث:517) یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، تاہم تائید میں پیش کی جا سکتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ''صورة الرحمٰن'' کی تاویل کی ہے کہ اس سے مراد صفت رحمٰن ہے۔ (فتح الباري:6/11) لیکن یہ طریقہ اسلاف کے منہج کے خلاف ہے۔ سلف کے نزدیک کسی قسم کی تاویل کرنے تکییف اور تمثیل، یعنی کیفیت بیان کرنے یا مخلوق کی صورت کے مشابہ قرار دینے کے بغیر اللہ تعالیٰ کے لیے صفت صورت ثابت ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک دوسرے مقام پر امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔ (فتح الباري:226/5) اللہ تعالیٰ کی توحید اسماء و صفات کے متعلق مکمل بحث ہم نے آگے کتاب التوحید میں کی ہے۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے سلام کی ابتدا ثابت کی ہے کہ اس کا آغاز کہاں سے اور کیسے ہوا۔ بہرحال بوقت ملاقات ''السلام علیکم'' سے بہتر کوئی کلمہ نہیں ہے۔ اگر ملنے والے ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور ان میں محبت و اخوت یا قرابت کا کوئی تعلق ہے تو اس کلمے میں محبت و مسرت اور اکرام و احترام کا پورا پورا اظہار ہے اور اگر پہلے سے کوئی تعارف نہیں تو یہ کلمہ اعتماد و خیر سگالی کا ذریعہ بنتا ہے اور اس کے ذریعے سے ہر ایک دوسرے کو اطمینان دلاتا ہے کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں اور ہمارے درمیان ایک روحانی رشتہ اور تعلق ہے۔