تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا ایک اصول ہے کہ بعض اوقات وہ عنوان کے ذریعے سے کسی روایت کی تردید یا تائید کرتے ہیں۔ تائید کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ الفاظ حدیث اگرچہ امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہیں ہوتے، لیکن مضمون حدیث صحیح ہوتا ہے۔ اس مضمون کو اپنی کسی روایت سے ثابت کرتے ہیں۔ (2)عنوان مذکورہ کا مطلب بھی ایک حدیث کے مضمون کو ثابت کرنا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اذان اور اقامت کے درمیان اتنا فاصلہ ہونا چاہیے کہ کھانے پینے والا اپنی ضروریات اور بول وبراز والا اپنی حوائج ضروریہ سے فارغ ہوسکے۔‘‘ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:195) یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے، تاہم امام بخاری ؒ کا مقصوداس کے مضمون کو ثابت کرنا ہے، چنانچہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اذان اور تکبیر کے درمیان کم از کم اتنا فاصلہ تو ہونا چاہیے کہ اگر کوئی دورکعت پڑھنا چاہے تو پڑھ سکے حتی کہ نماز مغرب جس کا وقت محدود ہوتاہے، وہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اگرچہ ایک حدیث میں مغرب کا استثنا آیا ہے، لیکن حفاظ حدیث کی مخالفت کی وجہ سے یہ اضافہ شاذ ہے۔ اس کے علاوہ راوئ حدیث حضرت بریدہ ؓ خود نماز مغرب سے پہلے دورکعت پڑھتے تھے۔ اگر مذکورہ اضافہ محفوظ ہوتا تو کم از کم حضرت بریدہ ان دو رکعات کو نہ پڑھتے، نیز اس روایت کے ایک راوی حیان بن عبداللہ پر بھی محدثین نے کچھ کلام کیا ہے۔ (فتح الباري:142/2) مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنے کے متعلق ہم آئندہ بحث کریں گے۔