Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Invocation at the time of Adhan)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
624.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اذان سنتے وقت یہ دعا پڑھے: (اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلاَةِ القَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الوَسِيلَةَ وَالفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ، حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ) ’’اے اللہ! اس کامل پکار اور قائم ہونے والی نماز کے رب! حضرت محمد ﷺ کو وسیلہ اور بزرگی عطا فر اور انہیں اس مقام پر پہنچا جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے، تو اسے قیامت کے دن میری شفاعت نصیب ہو گی۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں الفاظ حدیث کے پیش نظر دعائے اذان کے محل کو متعین نہیں فرمایا۔ ممکن ہے کہ ان کے نزدیک دوران اذان میں کسی وقت بھی اسے پڑھنا جائز ہو۔ امام طحاوی ؒ نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اذان کا جواب دینا ضروری نہیں، اگر کوئی مذکورہ دعا پڑھ لے تو یہی کافی ہے، جبکہ دیگر روایات میں جواب اذان کے لیے صیغۂ امر وارد ہے جو عام طور پر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک مذکورہ دعا اذان سے فراغت کے بعد پڑھنی چاہیے اور اس سے پہلے دورد پڑھنے کی تاکید ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب مؤذن اذان دے تو تم اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر درود پڑھو، اس کے بعد میرے لیے" الوسیلہ" ملنے کی دعا کرو۔‘‘(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:849(384)) (2) واضح رہے کہ وسیلہ کے متعلق خود رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :’’یہ جنت میں ایک درجے کا نام ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کے لائق ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں۔ جس نے میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلے کی دعا کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔‘‘(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:849(384)) حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص مؤذن کی اذان سن کر مندرجہ ذیل دعا پڑھے تو اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے:(أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمداً عبده ورسوله، رضيت بالله ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دينا)میں گوہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔اس کا کوئی شریک نہیں۔یقینا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے فرستادہ ہیں۔ میں اللہ کے رب ہونے ، محمد ﷺ کے رسول ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:851(386)) دعائے اذان کی ترتیب اس طرح ہونی چاہیے؛ پہلے درود پڑھا جائے، پھر دعا اور آخر میں مذکورہ کلمات کہے جائیں۔ (3) اذان کی مذکورہ دعا میں (الدرجة الرفيعة) اور (وارزقنا شفاعته يوم القيامة) کے الفاظ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، البتہ(إنك لا تخلف الميعاد) کا اضافہ بعض روایات میں ملتا ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي:110/1) لیکن محدثین نے اس اضافے کو بھی شاذ قرار دیا ہے, کیونکہ راوئ حدیث علی بن عیاش سے جتنے طرق کتب حدیث میں مروی ہیں، کسی میں بھی یہ الفاظ نہیں ملتے۔ (إرواء الغلیل:261/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
610
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
614
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
614
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
614
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اذان سنتے وقت یہ دعا پڑھے: (اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلاَةِ القَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الوَسِيلَةَ وَالفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ، حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ) ’’اے اللہ! اس کامل پکار اور قائم ہونے والی نماز کے رب! حضرت محمد ﷺ کو وسیلہ اور بزرگی عطا فر اور انہیں اس مقام پر پہنچا جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے، تو اسے قیامت کے دن میری شفاعت نصیب ہو گی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں الفاظ حدیث کے پیش نظر دعائے اذان کے محل کو متعین نہیں فرمایا۔ ممکن ہے کہ ان کے نزدیک دوران اذان میں کسی وقت بھی اسے پڑھنا جائز ہو۔ امام طحاوی ؒ نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اذان کا جواب دینا ضروری نہیں، اگر کوئی مذکورہ دعا پڑھ لے تو یہی کافی ہے، جبکہ دیگر روایات میں جواب اذان کے لیے صیغۂ امر وارد ہے جو عام طور پر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک مذکورہ دعا اذان سے فراغت کے بعد پڑھنی چاہیے اور اس سے پہلے دورد پڑھنے کی تاکید ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب مؤذن اذان دے تو تم اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر درود پڑھو، اس کے بعد میرے لیے" الوسیلہ" ملنے کی دعا کرو۔‘‘(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:849(384)) (2) واضح رہے کہ وسیلہ کے متعلق خود رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :’’یہ جنت میں ایک درجے کا نام ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کے لائق ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں۔ جس نے میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلے کی دعا کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔‘‘(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:849(384)) حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص مؤذن کی اذان سن کر مندرجہ ذیل دعا پڑھے تو اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے:(أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمداً عبده ورسوله، رضيت بالله ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دينا)میں گوہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔اس کا کوئی شریک نہیں۔یقینا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے فرستادہ ہیں۔ میں اللہ کے رب ہونے ، محمد ﷺ کے رسول ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:851(386)) دعائے اذان کی ترتیب اس طرح ہونی چاہیے؛ پہلے درود پڑھا جائے، پھر دعا اور آخر میں مذکورہ کلمات کہے جائیں۔ (3) اذان کی مذکورہ دعا میں (الدرجة الرفيعة) اور (وارزقنا شفاعته يوم القيامة) کے الفاظ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، البتہ(إنك لا تخلف الميعاد) کا اضافہ بعض روایات میں ملتا ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي:110/1) لیکن محدثین نے اس اضافے کو بھی شاذ قرار دیا ہے, کیونکہ راوئ حدیث علی بن عیاش سے جتنے طرق کتب حدیث میں مروی ہیں، کسی میں بھی یہ الفاظ نہیں ملتے۔ (إرواء الغلیل:261/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عیاش ہمدانی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعیب بن ابی حمزہ نے بیان کیا، انھوں نے محمد بن المنکدر سے بیان کیا، انھوں نے فرمایا کہ جو شخص اذان سن کر یہ کہے اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلاَةِ القَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الوَسِيلَةَ وَالفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ، اسے قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی۔
حدیث حاشیہ:
دعا کا ترجمہ یہ ہے:اے میرے اللہ جو اس ساری پکار کا رب ہے اورقائم رہنے و الی نماز کا بھی رب ہے، محمد ﷺ کو قیامت کے دن وسیلہ نصیب فرمانا اور بڑے مرتبہ اورمقام محمود پر ان کا قیام فرمائیو، جس کا تونے ان سے وعدہ کیاہواہے۔ بعض لوگوں نے اس دعا میں کچھ الفاظ اپنی طرف سے بڑھا لیے ہیں یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ حدیث میں جتنے الفاظ وارد ہوئے ہیں ان پر زیادتی کرنا موجب گناہ ہے۔ اذان پوری پکار ہے اس کا مطلب یہ کہ اس کے ذریعہ نماز اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے پکارا جاتاہے۔ کامیابی سے مراد دین اوردنیا کی کامیابی ہے اوریہ چیز یقینا نماز کے اندر موجود ہے کہ اس کو باجماعت ادا کرنے سے باہمی محبت اوراتفاق پیدا ہوتاہے اورکسی قوم کی ترقی کے لیے یہی بنیاد اوّل ہے۔ دعوة تامة سے دعوت توحید کلمہ طیبہ مراد ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Whoever after listening to the Adhan says, 'Allahumma Rabba hadhihi-d-da' watit-tammati was-salatil qa'imati, ati Muhammadan al-wasilata wal-fadilata, wab' athhu maqaman mahmudan-il-ladhi wa' adtahu (O Allah! Lord of this perfect call (of not ascribing partners to You) and of the regular prayer which is going to be established! Kindly give Muhammad the right of intercession and superiority and send him (on the Day of Judgment) to the best and the highest place in Paradise which You promised him)', then intercession for me will be permitted for him on the Day of Resurrection").