تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام و کلام میں تکرار فرماتے تھے لیکن اس سے مراد اکثر اوقات ہیں، یعنی افہام و تفہیم کے لیے اکثر ایسا کرتے تھے تاکہ سلام عام ہو اور بات دلوں میں راسخ ہو جائے۔ (عمدة القاري:361/15)
(2) تین دفعہ سلام کرنے کی حسب ذیل توجیہات ممکن ہیں: ٭ جب مجمع زیادہ ہوتا اور لوگ منتشر ہوتے تو تمام حاضرین کو سلام پہنچانے کے لیے تین مرتبہ سلام کرتے۔ ایک سامنے، دوسرا دائیں جانب اور تیسرا بائیں طرف کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کے تمام حاضرین مشتاق ہوتے تھے۔ ٭ اگر کہیں جم غفیر ہوتا تو ایک سلام داخل ہوتے ہی کرتے، دوسرا درمیان میں پہنچ کر اور تیسرا سلام آخر میں پہنچ کر فرماتے۔ ٭ یہ سلام، سلام اجازت ہے جو زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ کہا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی مقصد معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے اس کے بعد حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان کیا ہے جو سلام اجازت سے متعلق ہے۔
(3) یہ بھی ممکن ہے کہ پہلا سلام اجازت کے لیے، دوسرا جب ان کے پاس جاتے اور تیسرا جب ان سے رخصت ہوتے کیونکہ عام حالات میں تین مرتبہ سلام کرنا آپ کے معمولات سے ثابت نہیں۔ پہلا سلام اجازت، دوسرا سلام ملاقات اور تیسرا سلام وداع۔ (شرح الکرماني:86/2) واللہ أعلم