Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: The neame: 'Al-Hazn')
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6245.
حضرت مسیب ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے دریافت فرمایا: تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میرا نام حزن ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم سہل ہو۔“ انہوں نے کہا: میں اس نام کو تبدیل نہیں کروں گا جو میرے والد رکھ گئے ہیں۔ ابن مسیب نے کہا: اس کے بعد ہمارے خاندان میں ہمیشہ سختی اور مصیبت کا دور رہا۔
تشریح:
(1) حضرت حزن رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درست مشورہ قبول نہ کیا جس کی سزا یہ ملی جو ان کے پوتے ابن مسیب بیان کرتے ہیں کیوں کہ حزن کے معنی ہیں: دشوار اور سخت ہے جبکہ سہل کے معنی ہیں: نرمی اور لطافت۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ نام کا اثر مسمی پر ضرور ہوتا ہے۔ اگر والدین جہالت کی وجہ سے غلط نام رکھ دیں تو اسے بعد میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ بہتر نام وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف عبدیت منسوب ہو، پھر انبیائے کرام علیہم السلام کے نام پر نام بھی رکھے جا سکتے ہیں۔ شرکیہ اور غلط ناموں سے بچنا ضروری ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5964
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6190
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6190
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6190
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
حضرت مسیب ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے دریافت فرمایا: تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میرا نام حزن ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم سہل ہو۔“ انہوں نے کہا: میں اس نام کو تبدیل نہیں کروں گا جو میرے والد رکھ گئے ہیں۔ ابن مسیب نے کہا: اس کے بعد ہمارے خاندان میں ہمیشہ سختی اور مصیبت کا دور رہا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت حزن رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درست مشورہ قبول نہ کیا جس کی سزا یہ ملی جو ان کے پوتے ابن مسیب بیان کرتے ہیں کیوں کہ حزن کے معنی ہیں: دشوار اور سخت ہے جبکہ سہل کے معنی ہیں: نرمی اور لطافت۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ نام کا اثر مسمی پر ضرور ہوتا ہے۔ اگر والدین جہالت کی وجہ سے غلط نام رکھ دیں تو اسے بعد میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ بہتر نام وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف عبدیت منسوب ہو، پھر انبیائے کرام علیہم السلام کے نام پر نام بھی رکھے جا سکتے ہیں۔ شرکیہ اور غلط ناموں سے بچنا ضروری ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انہوں نے نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور انہیں ان کے والد مسیب ؓ نے کہ ان کے والد (حزن بن ابی وہب) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ حزن (بمعنی سختی) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم سہل (بمعنی نرمی) ہو، پھر انہوں نے کہا کہ میرا نام میرے والد رکھ گئے ہیں اسے میں نہیں بدلوں گا۔ حضرت ابن مسیب ؓ بیان کرتے تھے کہ چنانچہ ہمارے خاندان میں بعد تک ہمیشہ سختی اور مصیبت کا دور رہا۔
حدیث حاشیہ:
یہ سزا تھی اس بات کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشورہ قبول نہیں کیا اورحزن بمعنی سختی قساوت کی جگہ سہل بمعنی نرمی نام پسند نہیں کیا اور یہ نہ جانا کہ نام کا اثر مسمیٰ میں ضرور ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ ایسا غلط نام والدین اگر رکھ دیں تووہ نام بعد میں بدل کر اچھا نام رکھ دینا چاہیے۔ اکثر عوام اپنے بچوں کا نام غلط ملط رکھ دیتے ہیں۔ حالانکہ سب سے بہتر نام وہ ہے جس میں اللہ پاک کی طرف عبدیت پائی جائے جیسے عبداللہ عبدالرحمن وغیرہ۔ انبیاء کرام کے نام پر نام رکھ دینا بھی جائز درست ہے جیسے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، عیسیٰ، موسیٰ وغیرہ وغیرہ۔ بعض لوگ شرکیہ نام رکھ دیتے ہیں وہ بہت ہی غلط ہوتے ہیں جیسے عبدالنبی عبدالرسول غلام جیلانی وغیرہ وغیرہ۔ سہل حزن کی ضد ہے۔ یعنی نرم اور ہموار زمین۔ اس سے یہ بھی نکلا کہ بڑا آدمی اگر کوئی مفید مشورہ دے تو اسے قبول کر لینا بہتر ہے خواہ وہ آباء واجداد کی رسموں کے خلاف ہی کیوں نہ پڑتا ہو۔ ماں باپ کے طور طریقے وہیں تک قابل عمل ہوتے ہیں جو شریعت اسلامی کے موافق ہوں ورنہ ماں باپ کی اندھی تقلید کوئی چیز نہیں ہے۔ حضرت سعید بن مسیب کبار تابعین میں سے ہیں۔ خلافت فاروقی کے دوسرے سال یہ پیدا ہوئے اور خلافت ولید بن عبدالملک 94ھ میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کے والد حضرت مسیب رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے شجرہ کے نیچے بیعت کی تھی۔ مسیب ہی کے باپ کا نام حزن تھا۔ حزن بن ذبیب بن عمر القریشی المخزومی جو مہاجرین میں سے تھے اور جاہلیت میں اشراف قریش میں ان کا شمار ہوتا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Musaiyab (RA) : That his father (Hazn bin Wahb) went to the Prophet (ﷺ) and the Prophet (ﷺ) asked (him), "What is your name?" He replied, "My name is Hazn." The Prophet (ﷺ) said, "You are Sahl." Hazn said, "I will not change the name with which my father has named me." Ibn Al-Musaiyab added: We have had roughness (in character) ever since.