قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ (بَابُ التَّسْلِيمِ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلاَطٌ مِنَ المُسْلِمِينَ وَالمُشْرِكِينَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

6254. حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ حِمَارًا، عَلَيْهِ إِكَافٌ تَحْتَهُ قَطِيفَةٌ فَدَكِيَّةٌ، وَأَرْدَفَ وَرَاءَهُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، وَهُوَ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِي بَنِي الحَارِثِ بْنِ الخَزْرَجِ، وَذَلِكَ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ، حَتَّى مَرَّ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلاَطٌ مِنَ المُسْلِمِينَ وَالمُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الأَوْثَانِ وَاليَهُودِ، وَفِيهِمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ، وَفِي المَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ، فَلَمَّا غَشِيَتِ المَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ، خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: لاَ تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا، فَسَلَّمَ عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ وَقَفَ، فَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَقَرَأَ عَلَيْهِمُ القُرْآنَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ: أَيُّهَا المَرْءُ، لاَ أَحْسَنَ مِنْ هَذَا إِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا، فَلاَ تُؤْذِنَا فِي مَجَالِسِنَا، وَارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ، فَمَنْ جَاءَكَ مِنَّا فَاقْصُصْ عَلَيْهِ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ: اغْشَنَا فِي مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ، فَاسْتَبَّ المُسْلِمُونَ وَالمُشْرِكُونَ وَاليَهُودُ، حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَتَوَاثَبُوا، فَلَمْ يَزَلِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ، ثُمَّ رَكِبَ دَابَّتَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ: «أَيْ سَعْدُ، أَلَمْ تَسْمَعْ إِلَى مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ - يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ - قَالَ كَذَا وَكَذَا» قَالَ: اعْفُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاصْفَحْ، فَوَاللَّهِ لَقَدْ أَعْطَاكَ اللَّهُ الَّذِي أَعْطَاكَ، وَلَقَدِ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ البَحْرَةِ عَلَى أَنْ يُتَوِّجُوهُ، فَيُعَصِّبُونَهُ بِالعِصَابَةِ، فَلَمَّا رَدَّ اللَّهُ ذَلِكَ بِالحَقِّ الَّذِي أَعْطَاكَ شَرِقَ بِذَلِكَ، فَذَلِكَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ، فَعَفَا عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

مترجم:

6254.

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان رکھا ہوا تھا اور نیچے فدک کی نبی ہوئی ایک مخملی چادر بچھی ہوئی تھی۔ آپ نے اپنے پیچھے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بٹھایا تھا اور آپ بنو حارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ اور یہ غزوہ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آپ ایک ایسی مجلس کے پاس گزرے جس میں مسلمان بت پرست مشرک اور یہودی سب ہی شریک تھے۔ ان میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا۔ اس مجلس میں حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ جب مجلس پر سواری کا گرد غبار پڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا: ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ۔ نبی ﷺ نے اہل مجلس کو سلام کیا اور وہاں رک گئے۔ آپ نے سواری سے اتر کر انہیں اللہ کے دین کی دعوت دی اور قرآن مجید کی تلاوت فرمائی۔ عبداللہ بن ابی کہنے لگا: اے آدمی! اگر یہ حق ہے تو ہماری مجالس میں آکر ہماری اذیت کا باعث نہ بنو، اپنے گھر چلے جاؤ، جو کوئی ہم میں سے تمہارے پاس آئے اسے بیان کیا کرو۔ حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ ہماری مجالس میں تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں پھر مسلمانوں مشرکوں اور یہودیوں میں اس بات پر تو تو، میں ميں ہونے لگی۔ قریب تھا کہ وہ آپس میں لڑ پڑیں، نبی ﷺ انہیں مسلسل خاموش کراتے رہے۔ جب وہ چپ ہوگئے تو آپ ﷺ اپنی سواری پر بیٹھ کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا: اے سعد! کیا تم نے سنا ہے آج ابو حباب نے کیا بات کہی ہے؟ اس نے یہ یہ باتیں کی ہیں؟ آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اسے معاف کر دیں اور اس سے درگزر فرمائیں۔ اللہ تعالٰی نے جو کچھ آپ کو دیا ہے وہ حق ہے دراصل بات یہ ہے کہ اس بستی کے لوگ اس بات پر متفق ہوگئے تھے کہ اس کی تاج پوشی کریں اور اس کے سر پر سر داری کی پگڑی باندھیں، لیکن جب اللہ تعالٰی نے اس منصوبے کو اس حق کی وجہ سے ختم کر دیا ہے جو اس نے آپ کو عطا فرمایا ہے تو یہ بھڑک اٹھا ہے اسی وجہ سے اس نے یہ کردار ادا کیا ہے جو آپ نے مشاہدہ کیا ہے چنانچہ نبی ﷺ نے اسے معاف کر دیا۔