تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کو معاف کرکے کمال دانائی اور دور اندیشی کی ایک شاندار روایت برقراررکھی۔ اللہ تعالیٰ آپ پر ان گنت درودوسلام نازل فرمائے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے یہ مقصود معلوم ہوتا ہے کہ جب کسی مجلس میں مسلمان اور کافر اکٹھے ہوں تو انھیں سلام کہا جا سکتا ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جب انسان کسی ایسی مجلس سے گزرے جہاں کافر اور مسلمان دونوں قسم کے لوگ موجود ہوں تو عام الفاظ سے سلام کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی نیت مسلمانوں کو سلام کہنے کی ہو کیونکہ حدیث میں کافر اور اہل کتاب کو ابتداءً سلام کہنے سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس امر کی صراحت ہے۔ (مسند أحمد:143/4) اور جوابًا بھی صرف وعلیکم کہنے کا حکم ہے اگرچہ بعض اہل علم نے اس کے متعلق نرم گوشہ رکھا ہے اور بطور دلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سلام کا حوالہ دیا ہے جو انھوں نے گھر سے رخصت ہوتے وقت اپنے باپ کو کہا تھا۔ (مریم19: 47) لیکن یہ سلام شرعی نہیں اور نہ بطور دعا ہی تھا بلکہ اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینے کے ارادے سے کہا تھا۔ (فتح الباري:48/11)