تشریح:
(1) محدثین کے ہاں دوران تعلیم میں اگر استاد اپنے کسی شاگرد کا ہاتھ پکڑتا ہے تو یہ بھی مصافحہ کی ایک شکل ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث میں دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کو ثابت کیا ہے، لیکن اس میں افضل رتبے والے کے دونوں ہاتھ اور کم رتبے والے، یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ ہے، جبکہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کی مروجہ صورت یہ نہیں بلکہ اس کے لیے دونوں طرف سے دونوں ہاتھوں کا ہونا ضروری ہے۔
(2) ہمارے رجحان کے مطابق دونوں جانب سے ایک ایک ہاتھ سے مصافحہ مسنون عمل ہے اگرچہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا ناجائز نہیں بلکہ ہم اس میں وسعت کے قائل ہیں اور ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کو مستحب کہتے ہیں جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سے ملتے اور مصافحہ کرنے کے بعد اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نہ کھینچتے حتی کے وہ خود ہی اپنا ہاتھ کھینچ لیتا اور اپنا چہرہ بھی اس کی جانب سے نہ پھیرتے حتی کہ وہ خود ہی اپنا چہرہ پھیر لیتا۔ (الزھد لابن المبارك، حدیث :392، وفتح الباري:68/11) اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ملے جبکہ میں اس وقت جنبی تھا، آپ نے میری طرف ہاتھ بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا اور عرض کی: میں جنابت سے ہوں تو آپ نےفرمایا: ’’مسلمان نجس نہیں ہوتا۔‘‘ ( شرح معاني الآثار للطحاوي:13/1، حدیث:6) یہ حدیث نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاقات کے وقت مصافحے کے لیے اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔ حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تم لوگ میری اس ہتھیلی کو دیکھتے ہو، میں نے اس ہتھیلی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی پر رکھا تھا۔ (مسند أحمد:189/4) یہ حدیث پہلے بیان ہوچکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھ کا ہاتھ پکڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ ان کی دعاؤں پر توجہ دے اور ان کے ہاتھ علیحدہ ہونے سے پہلے انھیں معاف کر دے۔‘‘ (مسند أحمد:142/3)
(3) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مسنون مصافحہ ایک ہاتھ سے ہے۔ اگرچہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا بھی جائز ہے لیکن اسے مسنون ہونے کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ واللہ أعلم