Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Al-Ma'arid is a safe way to avoid a lie)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اسحاق نے بیان کیا کہ میں نے انس ؓ سے سنا کہ ابو طلحہ کے ایک بچے ابو عمیر نامی کا انتقال ہو گیا ۔ انہوں نے ( اپنی بیوی سے ) پوچھا کہ بچہ کیسا ہے ؟ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اس کی جان کو سکون ہے اور مجھے امید ہے کہ اب وہ چین سے ہوگا ۔ ابو طلحہ اس کلام کا مطلب یہ سمجھے کہ ام سلیم سچی ہے ۔
6267.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ مدینہ طیبہ میں گھبراہٹ پیدا ہوئی تو نبی ﷺ حضرت طلحہ ؓ کے گھوڑے پر سوار ہوئے اور فرمایا: ”ہمیں تو خوف وہراس کی کوئی چیز نظر نہیں آئی البتہ ہم نے اس گھوڑے کو سمندر پایا ہے۔“
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کی رفتار کو سمندر سے تشبیہ دی کہ یہ بڑی روانی اور سکون سے دوڑتا ہے، پھر اس کی روانی کی صفت کو مجازی طور پر گھوڑے پر بولا گیا۔ (2) بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے الفاظ استعمال کیے جن کے ظاہری معنی مراد نہیں تھے۔ بعض اوقات ایسا کرنا جائز ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5986
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6212
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6212
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6212
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
ذو معنی بات سے وہ گفتگو مراد ہے جس کے دو پہلو ہوں: ظاہر اور باطن یا سچ اور جھوٹ۔ دشمن کے مقابلے میں جہاں شرعی مصلحت ہو وہاں ایسا انداز اختیار کرنا جائز ہے۔ مسلمانوں کے درمیان بھی کسی شرعی ضرورت کے پیش نظر ذو معنی بات کی جا سکتی ہے لیکن اس کے ذریعے سے حق کا انکار یا کسی کا حق مارنا جھوٹ اور دھوکا دہی ہے، شریعت نے اسے ناجائز قرار دیا ہے۔ (2) حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے واقعہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الجنائز،حدیث:1301) ام سلیم رضی اللہ عنہا کے کلام سے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ یہ سمجھے کہ بچے کو بیماری سے آرام آ گیا ہے جبکہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کا اس کلام سے مطلب یہ تھا کہ بچہ دنیا کی مصیبت سے آرام پا چکا ہے۔ انہوں نے اپنے خاوند کو راحت اور آرام پہنچانے کے لیے ذو معنی بات کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب اس کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلیم رضی اللہ عنہا کی تعریف کی۔ معلوم ہوا ضرورت کے وقت ذو معنی بات کی جا سکتی ہے۔ (فتح الباری:10/728) واللہ اعلم
اور اسحاق نے بیان کیا کہ میں نے انس ؓ سے سنا کہ ابو طلحہ کے ایک بچے ابو عمیر نامی کا انتقال ہو گیا ۔ انہوں نے ( اپنی بیوی سے ) پوچھا کہ بچہ کیسا ہے ؟ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اس کی جان کو سکون ہے اور مجھے امید ہے کہ اب وہ چین سے ہوگا ۔ ابو طلحہ اس کلام کا مطلب یہ سمجھے کہ ام سلیم سچی ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ مدینہ طیبہ میں گھبراہٹ پیدا ہوئی تو نبی ﷺ حضرت طلحہ ؓ کے گھوڑے پر سوار ہوئے اور فرمایا: ”ہمیں تو خوف وہراس کی کوئی چیز نظر نہیں آئی البتہ ہم نے اس گھوڑے کو سمندر پایا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کی رفتار کو سمندر سے تشبیہ دی کہ یہ بڑی روانی اور سکون سے دوڑتا ہے، پھر اس کی روانی کی صفت کو مجازی طور پر گھوڑے پر بولا گیا۔ (2) بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے الفاظ استعمال کیے جن کے ظاہری معنی مراد نہیں تھے۔ بعض اوقات ایسا کرنا جائز ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت انس ؓ روایت کہ حضرت ابو طلحہ ؓ کا بیٹا فوت ہوگیا انہوں نےے پوچھا بچہ کیسا ہے؟ ام سلیم ؓ نے کہا: اس کی جان کو سکون ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ آرام میں ہے۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے انہیں سچا گمان کیا
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ مدینہ منورہ پر (ایک رات نامعلوم آواز کی وجہ سے) ڈرطاری ہو گیا۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ ابو طلحہ کے ایک گھوڑے پر سوار ہوئے۔ پھر (واپس آکر) فرمایا ہمیں تو کوئی (خوف کی) چیز نظر نہ آئی۔ البتہ یہ گھوڑا تو گویا دریا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): There was a state of fear in Medina. Allah's Apostle (ﷺ) rode a horse belonging to Abu Talha (in order to see the matter). The Prophet (ﷺ) said, "We could not see anything, and we found that horse like a sea (fast in speed)."