باب: کسی شخص کا کسی چیز کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ کچھ نہیں اور مقصد یہ ہوکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: The description of something by a man as 'nothing' while he means that it is not true)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا آنحضرت ﷺنے دو قبر والوں کے حق میں فرمایا کسی بڑے گناہ میں عذاب نہیں دیئے جاتے اورحالانکہ وہ بڑا گناہ ہے ۔تشریح : امام بخاری یہ نے اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکالا کہ جب آنحضرت ﷺ نے بڑے کو فرمایا کہ بڑا نہیں تو سلب شی عن نفسہ کیا اور یہی مقصود باب ہے کہ شے کو لیس بشی کہنا۔ اظہار تعجب کے لئے اردو میں بھی یہ محاورہ مستعمل ہے۔
6268.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کاہنوں کے متعلق پوچھا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”وہ کوئی شے نہیں۔ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! بعض اوقات یہ کاہن ایسی باتیں بتاتے ہیں جو صحیح ثابت ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ باتیں جو صحیح ثابت ہوتی ہیں انہیں کوئی جن فرشتوں سے سن کر اڑا لیتا ہے۔ پھر اپنے دوست کے کان میں مرغ کی آواز کی طرح ڈالتا ہے، پھر اس سچی بات کاہن سو جھوٹ ملا دیتا ہے۔“
تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاہنوں کے متعلق فرمایا: وہ کچھ بھی نہیں ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی باتیں قابل اعتماد نہیں ہیں جیسا کہ ہم کسی بدکردار شخص کو کہتے ہیں کہ وہ انسان نہیں ہے۔ اس کے انسان ہونے کی نفی سے مراد ذات کی نفی نہیں بلکہ کردار کی نفی ہے، یعنی اس میں انسانیت نہیں ہے۔ اسی طرح ہم اس شخص کو کہتے ہیں جس نے مضبوط کام نہ کیا ہو، تو نے کچھ نہیں کیا، حالانکہ اس نے کچھ نہ کچھ تو کیا ہوتا ہے۔ کام کی نفی سے مراد قابل اعتماد اور مضبوط کام کی نفی ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5987
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6213
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6213
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6213
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
کسی چیز کو لا شئي کہنے سے مراد اس چیز کی نفی نہیں بلکہ اس کے مبنی برحقیقت ہونے کی نفی ہے۔ قبر والوں کو عذاب پر مشتمل حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کی ہے۔ (صحیح البخاری،الادب،حدیث:6055) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: انہیں عذاب دیا جا رہا ہے لیکن کسی بڑی بات میں نہیں، یعنی اگر ان سے بچنا اور پرہیز کرنا چاہتے تو کوئی ایسی بڑی بات نہ تھی اگرچہ سنگینی اور انجام کے اعتبار سے وہ کبیرہ گناہ ہیں۔ اس کی نفی ایک الگ حیثیت سے ہے اور اثبات ایک دوسرے اعتبار سے ہے۔ واللہ اعلم
اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا آنحضرت ﷺنے دو قبر والوں کے حق میں فرمایا کسی بڑے گناہ میں عذاب نہیں دیئے جاتے اورحالانکہ وہ بڑا گناہ ہے ۔تشریح : امام بخاری یہ نے اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکالا کہ جب آنحضرت ﷺ نے بڑے کو فرمایا کہ بڑا نہیں تو سلب شی عن نفسہ کیا اور یہی مقصود باب ہے کہ شے کو لیس بشی کہنا۔ اظہار تعجب کے لئے اردو میں بھی یہ محاورہ مستعمل ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کاہنوں کے متعلق پوچھا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”وہ کوئی شے نہیں۔ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! بعض اوقات یہ کاہن ایسی باتیں بتاتے ہیں جو صحیح ثابت ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ باتیں جو صحیح ثابت ہوتی ہیں انہیں کوئی جن فرشتوں سے سن کر اڑا لیتا ہے۔ پھر اپنے دوست کے کان میں مرغ کی آواز کی طرح ڈالتا ہے، پھر اس سچی بات کاہن سو جھوٹ ملا دیتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاہنوں کے متعلق فرمایا: وہ کچھ بھی نہیں ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی باتیں قابل اعتماد نہیں ہیں جیسا کہ ہم کسی بدکردار شخص کو کہتے ہیں کہ وہ انسان نہیں ہے۔ اس کے انسان ہونے کی نفی سے مراد ذات کی نفی نہیں بلکہ کردار کی نفی ہے، یعنی اس میں انسانیت نہیں ہے۔ اسی طرح ہم اس شخص کو کہتے ہیں جس نے مضبوط کام نہ کیا ہو، تو نے کچھ نہیں کیا، حالانکہ اس نے کچھ نہ کچھ تو کیا ہوتا ہے۔ کام کی نفی سے مراد قابل اعتماد اور مضبوط کام کی نفی ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس ؓنے کہا کہ نبی ﷺنے دو قبر والوں کے متعلق فرمایا: ”انہیں کسی بڑی بات کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جارہا حالانکہ وہ کبیرہ گناہ تھا“
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو مخلد بن یزید نے خبر دی، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی کہ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھ کو یحییٰ بن عروہ نے خبر دی، انہوں نے عروہ سے سنا، کہا کہ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کاہنوں کے بارے میں پوچھا۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ ان کی (پیشین گوئیوں کی) کوئی حیثیت نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! لیکن وہ بعض اوقات ایسی باتیں کرتے ہیں جو صحیح ثابت ہوتی ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ بات سچی بات ہوتی ہے جسے جن فرشتوں سے سن کر اڑا لیتا ہے اور پھر اسے اپنے ولی (کاہن) کے کان میں مرغ کی آواز کی طرح ڈالتا ہے۔ اس کے بعد کاہن اس (ایک سچی بات میں) سو سے زیادہ جھوٹ ملا دیتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : Some people asked Allah's Apostle (ﷺ) about the fore-tellers. Allah's Apostle (ﷺ) said to them, "They are nothing (i.e., liars)." The people said, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Sometimes they tell something which comes out to be true." Allah's Apostle (ﷺ) said, "That word which comes to be true is what a jinx snatches away by stealing and then pours it in the ear of his fore-teller with a sound similar to the cackle of a hen, and then they add to it one-hundred lies."