تشریح:
مصنف عبدالرزاق میں سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ وہ سفر میں صبح کی دو اذانیں کہا کرتے تھے۔ گویا ان کے نزدیک سفروحضر کی کوئی تفریق نہ تھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران سفر میں اذان میں تکرار نہیں ہونی چاہیے، لیکن حدیث کے ظاہری سیاق میں سفر وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں۔ امام بخاری ؒ نے گویا ایک دوسری روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں سفر کی وضاحت ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دو آدمی آئے، سفر کا ارادہ کیے ہوئے تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا:’’جب تم سفر پر روانہ ہوجاؤ تو دوران سفر میں اذان دو، پھر تکبیر کہو، اس کے بعد تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کے فرائض سر انجام دے۔‘‘(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:630) لیکن اس دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران سفر میں دونوں حضرات کو اذان کہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ان الفاظ کی وضاحت فرمائی ہے کہ تم دونوں میں سے جو اذان دینا چاہے وہ اذان دے۔ (فتح الباري:145/2-146)