تشریح:
(1) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ دورانِ سفر میں اذان اس وقت کہی جائے جب کسی لشکر یا قافلے کا امیر موجود ہو اس کے علاوہ صرف اقامت کہنے کا حکم ہے۔ امام مالک کا بھی یہی موقف ہے کہ جماعت میں اگر امیر ہو تو اذان کہی جائے بصورت دیگر نہیں۔ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ اذان ایک مستقل چیز ہے، وہ امیر پر موقوف نہیں، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤذن نے دوران سفر میں بار بار اذان کہنے کا ارادہ کیا، بالآخر جب گرمی کی شدت کم ہوئی تو ظہر کے لیے اذان دی گئی، پھر اقامت کے ساتھ نماز باجماعت ادا کی گئی۔ اس عنوان کا یہ مقصد نہیں کہ دوران سفر میں اکیلا آدمی اذان اور اقامت نہیں کہہ سکتا، کیونکہ قبل ازیں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ایک حدیث (609) گزرچکی ہے کہ اکیلا آدمی بھی بآواز بلند اذان دے۔ اذان کے بےشمار مصالح اور متعدد فوائد ہیں، ان میں ایک مشروعیت اجتماع بھی ہے، اس لیے اگر جماعت نہیں تو بھی اذان کہنا مشروع ہے۔
(2) امام بخاری ؒ نے میدان عرفات اور مزدلفہ میں بھی اذان اور اقامت کا ذکر کیا ہے، حالانکہ حج بیت اللہ امیر پر موقوف نہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ دوران سفر میں اگر مسافر زیادہ ہوں تو انھیں اذان اور اقامت کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے، خواہ امیر ہویا نہ ہو۔