تشریح:
اس حدیث میں واضح طور پر حکم ہے کہ دوران سفر میں اذان دی جائے، تکبیر بھی کہی جائے اور پھر باجماعت نماز ادا کی جائے۔ اس میں امیر کے ہونے یا نہ ہونے کا کوئی ذکر نہیں، لیکن اس حدیث کے ظاہری سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں اذان دیں اور دونوں تکبیر کہیں۔ بعض اسلاف نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ دوران سفر میں دونوں کو بیک وقت اذان دینی چاہیے، لیکن ان کا موقوف مرجوح ہے۔ ان الفاظ کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تم میں سے کوئی اذان دے اور دوسرا تکبیر کہہ دے۔ جیسا کہ حدیث:631 سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ طبرانی کی روایت میں مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں حکم دیا کہ جب تو اپنے ساتھی کے ہمراہ سفر کرے تو تجھے اذان دینی ہے اور تکبیر بھی کہنی ہے، پھر جو تم میں عمر کے اعتبار سے بڑا ہے وہ جماعت کرائے۔ (فتح الباري:147/2) اس حدیث میں کچھ ابہام اور اجمال ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے وضاحت اور تفصیل کے لیے درج ذیل ایک دوسری روایت کو بیان کیا ہے۔