تشریح:
(1) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا مقصود، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اپنی تنگدستی کا اظہار ہے کہ میں نے بقدر ضرورت اپنی کٹیا تعمیر کی تھی، اس کے بعد تباہ حال اور تنگ دست وفقیر، مال دار بن گئے اور ضرورت کے بغیر مکانات تعمیر کرنے میں دلچسپی لینے لگے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عمارت اپنے بنانے والے کے لیے وبال جان ہوگی مگرو وہ عمارت جس کے بغیر چارۂ کار نہ ہو۔" (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:5237)
(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: جن احادیث میں تعمیرات کی مذمت بیان ہوئی ہے ان سے مراد ایسی عمارات ہیں جو بلا ضرورت، محض نمائش اور اظہار فخر کے لیے بنائی گئی ہوں لیکن جو عمارتیں رہائش اور گرمی سردی سے بچاؤ کے لیے ہیں وہ قطعاً مراد نہیں کیونکہ یہ انسانی ضرورت کے لیے ہوتی ہیں۔ ( فتح الباري:111/11)