باب: مردوں کا عورتوں کو سلام کرنا اور عورتوں کا مردوں کو
)
Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: Greeting of men to women, and women to men)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6303.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم جمعہ کے دن بہت خوش ہوتے تھے۔ میں نے پوچھا : کیوں؟ انہوں نے فرمایا کہ ہماری ایک بڑھیا تھیں جو مقام بضاعہ کی طرف کسی کو بھیجا کرتی تھیں، بضاعہ مدینہ طیبہ میں کھجوروں کا ایک داغ تھا، پھر وہ وہاں سے چقندر منگواتیں اور انہیں ہانڈی میں ڈال کر ان میں جو کے دانے پیس کر ملاتیں۔ جب ہم جمعہ پڑھ کر واپس ہوتے تو انہیں سلام کرنے کے لیے آتے۔ وہ ہمیں اپنا تیار کردہ کھانا پیش کرتیں ہم اس وجہ سے جمعہ کے دن بہت خوش ہوتے تھے۔ ہم جمعہ کی نماز کے بعد ہی دوپہر کا کھانا کھاتے اور آرام کرتے تھے۔
تشریح:
سلام عام کرنے کا تقاضا یہی ہے کہ مرد حضرات عورتوں کو بھی سلام کریں جیسا کہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کے حوالے سے ہم نے بیان کیا ہے اور عورتیں مردوں کو سلام کہیں جیسا کہ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تھا۔ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث:6158) حالانکہ آپ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے لیے غیر محرم تھے، تاہم فتنہ و فساد سے خود کو محفوظ رکھنا بھی بہت ضروری ہے، اس لیے اگر کسی فتنے کا اندیشہ ہو تو عورتوں کو سلام کہنے سے پرہیز کیا جائے بصورت دیگر سلام پھیلانے کا تقاضا یہی ہے کہ مرد، عورتوں کو اور عورتیں، مردوں کو سلام کریں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6022
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6248
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6248
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6248
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
تمہید باب
بعض اسلاف نے مردوں کا عورتوں کو اور عورتوں کا مردوں کو سلام کرنا مکروہ کہا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے ہاں یہ موقف محل نظر ہے، اس لیے آپ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔ حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم عورتوں کے پاس سے گزرے تو آپ نے ہمیں سلام کہا۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5204) بہرحال جہاں فتنے اور شبہے کا اندیشہ نہ ہو اجنبی عورتوں کو سلام کہنا سنت ہے بالخصوص قوم کے بڑوں اور بزرگوں کے لیے یہ ایک مستحب عمل ہے۔
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم جمعہ کے دن بہت خوش ہوتے تھے۔ میں نے پوچھا : کیوں؟ انہوں نے فرمایا کہ ہماری ایک بڑھیا تھیں جو مقام بضاعہ کی طرف کسی کو بھیجا کرتی تھیں، بضاعہ مدینہ طیبہ میں کھجوروں کا ایک داغ تھا، پھر وہ وہاں سے چقندر منگواتیں اور انہیں ہانڈی میں ڈال کر ان میں جو کے دانے پیس کر ملاتیں۔ جب ہم جمعہ پڑھ کر واپس ہوتے تو انہیں سلام کرنے کے لیے آتے۔ وہ ہمیں اپنا تیار کردہ کھانا پیش کرتیں ہم اس وجہ سے جمعہ کے دن بہت خوش ہوتے تھے۔ ہم جمعہ کی نماز کے بعد ہی دوپہر کا کھانا کھاتے اور آرام کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
سلام عام کرنے کا تقاضا یہی ہے کہ مرد حضرات عورتوں کو بھی سلام کریں جیسا کہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کے حوالے سے ہم نے بیان کیا ہے اور عورتیں مردوں کو سلام کہیں جیسا کہ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تھا۔ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث:6158) حالانکہ آپ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے لیے غیر محرم تھے، تاہم فتنہ و فساد سے خود کو محفوظ رکھنا بھی بہت ضروری ہے، اس لیے اگر کسی فتنے کا اندیشہ ہو تو عورتوں کو سلام کہنے سے پرہیز کیا جائے بصورت دیگر سلام پھیلانے کا تقاضا یہی ہے کہ مرد، عورتوں کو اور عورتیں، مردوں کو سلام کریں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی حازم نے ان سے ان کے والد نے اور ان سے سہل ؓ نے کہ ہم جمعہ کے دن خوش ہوا کرتے تھے۔ میں نے عرض کی کس لئے؟ فرمایا کہ ہماری ایک بڑھیا تھیں جو مقا م بضاعہ جایا کر تی تھیں۔ ابن سلمہ نے کہا کہ بضاعہ مدینہ منورہ کا کھجور کا ایک باغ تھا۔ پھر وہ وہاں سے چقندر لایا کرتی تھیں اور اسے ہانڈی میں ڈالتی تھیں اور جو کے کچھ دانے پیس کر (اس میں ملاتی تھیں) جب ہم جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس ہوتے تو انہیں سلام کرنے آتے اور وہ یہ چقندر کی جڑ میں آٹا ملی ہوئی دعوت ہمارے سامنے رکھتی تھیں ہم اس وجہ سے جمعہ کے دن خوش ہوا کرتے تھے اور قیلولہ یا دو پہر کا کھانا ہم جمعہ کے بعد کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hazim (RA) : Sahl said, "We used to feel happy on Fridays." I asked Sahl, "Why?" He said, "There was an old woman of our acquaintance who used to send somebody to Buda'a (Ibn Maslama said, "Buda'a was a garden of date-palms at Medina). She used to pull out the silq (a kind of vegetable) from its roots and put it in a cooking pot, adding some powdered barley over it (and cook it). After finishing the Jumua (Friday) prayer we used to (pass by her and) greet her, whereupon she would present us with that meal, so we used to feel happy because of that. We used to have neither a midday nap, nor meals, except after the Friday prayer." (See Hadith No. 60, Vol.2)