Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The Adhan before Al-Fajr (dawn))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
631.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی بلال کی اذان سن کر سحری کھانا ترک نہ کرے کیونکہ وہ رات کو اذان دیتا ہے تاکہ تہجد پڑھنے والا لوٹ جائے اور جو ابھی سویا ہوا ہو، اسے بیدار کر دے اور فجر ایسے نہیں ہے۔‘‘ آپ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے پہلے ان کو اوپر اٹھایا پھر آہستہ آہستہ نیچے کی طرف جھکایا، پھر فرمایا: ’’فجر اس طرح ہوتی ہے۔‘‘ زہیر راوی نے وضاحت کی کہ آپ نے اپنی دونوں شہادت کی انگلیاں ایک دوسری کے اوپر رکھ کر انہیں دائیں بائیں پھیلا دیا، یعنی دونوں گوشوں میں روشنی پھیل جائے تو صبح ہوتی ہے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز فجر کی اذان طلوع فجر سے پہلے جائز ہے، حالانکہ حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قبل از فجر اذان نماز فجر کے لیے ہوتی تھی، بلکہ اس اذان کے مقاصد ہی الگ ہیں، یعنی نماز تہجد سے فارغ ہوکر اذان فجر سے پہلے پہلے سحری کھانا اور نماز کےلیے بیدار ہوکر ضروریات سے فارغ ہونا تاکہ نماز فجر کی تیاری کی جاسکے، جبکہ اذان فجر کا مقصد انتہائے سحری کا اعلان اور نماز فجر کےلیے وقت کی اطلاع دینا ہے، اس لیے مناسب تھا کہ یہ عنوان بایں الفاظ ہوتا:’’فجر سے قبل سحری کی اذان دینا۔‘‘ (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فجر دوطرح کی ہوتی ہے: ایک فجر کا ذب اور دوسری فجر صادق، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے خود اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ فجر کی دواقسام ہیں: ایک وہ جس میں کھانا حرام اور نماز پڑھنا جائز ہوتا ہے اور دوسری وہ جس میں نماز پڑھنا حرام اور کھانا تناول کرنا حلال ہوتاہے۔ ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ ایک وہ صبح ہے جو بھیڑیے کی دم کی طرح بالکل سیدھی آسمان میں اوپر چڑھتی معلوم ہوتی ہے۔ اس میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہوتا، البتہ کھانا تناول کرنے کو حرام نہیں کرتی۔ اور دوسری وہ جو آسمان کے کناروں میں دائیں بائیں پھیل جاتی ہے، یہ روزے دار کے لیےکھانے کو حرام کردیتی ہے اور اس میں نماز فجر ادا کرنا جائز اور حلال ہوتا ہے۔ (المستدرك للحاکم:1919/1، حدیث:687، 688)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
617
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
621
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
621
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
621
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
اس اذان سے نماز کے وقت کی اطلاع دینا مقصود نہیں بلکہ یہ سحری کی اذان ہے کیونکہ وقت کی اطلاع کے لیے جو اذان دی جاتی ہے وہ طلوع فجر کے بعد ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے وضاحت کردی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی بلال کی اذان سن کر سحری کھانا ترک نہ کرے کیونکہ وہ رات کو اذان دیتا ہے تاکہ تہجد پڑھنے والا لوٹ جائے اور جو ابھی سویا ہوا ہو، اسے بیدار کر دے اور فجر ایسے نہیں ہے۔‘‘ آپ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے پہلے ان کو اوپر اٹھایا پھر آہستہ آہستہ نیچے کی طرف جھکایا، پھر فرمایا: ’’فجر اس طرح ہوتی ہے۔‘‘ زہیر راوی نے وضاحت کی کہ آپ نے اپنی دونوں شہادت کی انگلیاں ایک دوسری کے اوپر رکھ کر انہیں دائیں بائیں پھیلا دیا، یعنی دونوں گوشوں میں روشنی پھیل جائے تو صبح ہوتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز فجر کی اذان طلوع فجر سے پہلے جائز ہے، حالانکہ حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قبل از فجر اذان نماز فجر کے لیے ہوتی تھی، بلکہ اس اذان کے مقاصد ہی الگ ہیں، یعنی نماز تہجد سے فارغ ہوکر اذان فجر سے پہلے پہلے سحری کھانا اور نماز کےلیے بیدار ہوکر ضروریات سے فارغ ہونا تاکہ نماز فجر کی تیاری کی جاسکے، جبکہ اذان فجر کا مقصد انتہائے سحری کا اعلان اور نماز فجر کےلیے وقت کی اطلاع دینا ہے، اس لیے مناسب تھا کہ یہ عنوان بایں الفاظ ہوتا:’’فجر سے قبل سحری کی اذان دینا۔‘‘ (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فجر دوطرح کی ہوتی ہے: ایک فجر کا ذب اور دوسری فجر صادق، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے خود اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ فجر کی دواقسام ہیں: ایک وہ جس میں کھانا حرام اور نماز پڑھنا جائز ہوتا ہے اور دوسری وہ جس میں نماز پڑھنا حرام اور کھانا تناول کرنا حلال ہوتاہے۔ ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ ایک وہ صبح ہے جو بھیڑیے کی دم کی طرح بالکل سیدھی آسمان میں اوپر چڑھتی معلوم ہوتی ہے۔ اس میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہوتا، البتہ کھانا تناول کرنے کو حرام نہیں کرتی۔ اور دوسری وہ جو آسمان کے کناروں میں دائیں بائیں پھیل جاتی ہے، یہ روزے دار کے لیےکھانے کو حرام کردیتی ہے اور اس میں نماز فجر ادا کرنا جائز اور حلال ہوتا ہے۔ (المستدرك للحاکم:1919/1، حدیث:687، 688)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر بن معاویہ جعفی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سلیمان بن طرخان تیمی نے بیان کیا ابوعثمان عبدالرحمن نہدی سے، انھوں نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا کہ بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے سے نہ روک دے کیونکہ وہ رات رہے سے اذان دیتے ہیں یا (یہ کہا کہ) پکارتے ہیں۔ تا کہ جو لوگ عبادت کے لیے جاگے ہیں وہ آرام کرنے کے لیے لوٹ جائیں اور جو ابھی سوئے ہوئے ہیں وہ ہوشیار ہو جائیں۔ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ فجر یا صبح صادق ہو گئی اور آپ نے اپنی انگلیوں کے اشارے سے (طلوع صبح کی کیفیت) بتائی۔ انگلیوں کو اوپر کی طرف اٹھایا اور پھر آہستہ سے انھیں نیچے لائے اور پھر فرمایا کہ اس طرح (فجر ہوتی ہے) حضرت زہیر راوی نے بھی شہادت کی انگلی ایک دوسری پر رکھی، پھر انھیں دائیں بائیں جانب پھیلا دیا۔
حدیث حاشیہ:
یعنی بتلادیاکہ فجر کی روشنی اس طرح پھیل جاتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Mas'ud (RA): The Prophet (ﷺ) said, "The Adhan pronounced by Bilal (RA) should not stop you from taking Suhur, for he pronounces the Adhan at night, so that the one offering the late night prayer (Tahajjud) from among you might hurry up and the sleeping from among you might wake up. It does not mean that dawn or morning has started." Then he (the Prophet) pointed with his fingers and raised them up (towards the sky) and then lowered them (towards the earth) like this (Ibn Mas'ud (RA) imitated the gesture of the Prophet (ﷺ)). Az-Zuhri gestured with his two index fingers which he put on each other and then stretched them to the right and left. These gestures illustrate the way real dawn appears. It spreads left and right horizontally. The dawn that appears in the high sky and lowers down is not the real dawn).