تشریح:
(1) حدیث سابق میں ابہام تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دو آدمی آئے۔ اس حدیث میں ان کی تعیین ہے کہ وہ حضرت مالک بن حویرث ؓ اور ان کے ساتھی تھے بلکہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ حضرت مالک بن حویرث ؓ خود فرماتےہیں کہ خود میں اور میرا ایک ساتھی رسول اللہ ﷺ کے پاس واپس ہوئے۔ (صحیح البخاري، الجھاد، حدیث:2848) البتہ حدیث کی کسی روایت میں اس ساتھی کا نام ذکر نہیں ہوا۔ (فتح الباري:147/2) نیز پہلی حدیث میں کچھ اجمال تھا کہ تم دونوں اذان کہو۔ اس روایت میں تفصیل ہے کہ تم میں سے کوئی ایک اذان دے اور دوسرا تکبیر کہے، یعنی بیک وقت دونوں نے اذان نہیں دینی بلکہ کوئی ایک اذان کہے۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصود روز روشن کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ دوران سفر میں اذان دی جائے اور تکبیر بھی کہی جائے، پھر جماعت کرائی جائے، خواہ سفر میں امیر ہو یا نہ ہو۔
(2) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت مالک بن حویرث اور ان کے رفقاء کو نماز کے متعلق ایک خاص ہدایت فرمائی ہے کہ جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح نماز پڑھا کرو۔ نماز کے متعلق مذکورہ امر نبوی وجوب کےلیے ہے جس کا ادا کرنا ضروری ہے۔ اس امر نبوی میں وہ تمام اعمال آجاتے ہیں جو تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک بجالائے جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی ہرہر ادا کو بجالانا ضروری ہے، البتہ اس کے استحباب یا جواز کی کوئی دلیل مل جائے تو وجوب کے بجائے استحباب اور جواز پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دلیل کے بغیر اعمال نماز کے متعلق استحباب و جواز کی تقسیم درست نہیں۔ عام طور پر رفع الیدین کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے کرنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا کوئی حکم منقول نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک رفع الیدین کرنے کا حکم اس امر نبوی کے تحت ہے جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے۔ اس کی مزید وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔ إن شاء الله.